Inquilab Logo

فلسطین : زیر علاج بچوں کی زندگیاں خطرے میں 

Updated: April 14, 2024, 12:02 PM IST | Agency | Ramallah

کچھ تباہ شدہ اسپتالوں میں اب تک علاج معالجے کی سہولت بحال نہیں ہوئی ہے اور یہ اسپتال کھنڈ ر بنے ہوئےہیں۔

United Nations aid coordinator Jamie McGoldrick examines a child at Kamal Adwan Hospital. Photo: INN
اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ کار جيمي ماكغولدريك کمال عدوان اسپتال میں ایک بچے کا معائنہ کرتےہوئے۔ تصویر : آئی این این

فلسطین کے اسپتالوں میں زیر علاج بچوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں جبکہ وہاں ایسےنوزائیدہ بچے پیدا ہورہےہیں جن کا وزن انتہائی کم ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے تشویش کا اظہار کیا۔ اس دوران فلسطین کے کچھ تباہ شدہ اسپتالوں میں اب تک علاج معالجے کی سہولت بحال نہیں ہوئی ہے اور یہ اسپتال اب تک کھنڈ ر بنے ہوئےہیں۔ 
بچوں کے وارڈ میں تیمار دارمایوس 
 شمالی غزہ کے کمال عدوان اسپتال میں بچوں کے وارڈ میں تیمار دارمایوس ہوچکےہیں، کیونکہ یہاں زیر علا ج ان کے بچوں کو بھوک کے سبب جان کا خطرہ لاحق ہے۔ 
  مقبوضہ فلسطینی علاقوں کیلئے اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ کار جيمي ماكغولدريك نے اس اسپتال کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اسپتال میں بچوں کو دیکھ کر تشویش کا اظہار کیا۔ اس سلسلے میں  جاری ایک بیان میں  بتایا، ’’ میں نے گزشتہ دنوں کمال عدوان اسپتال کا دورہ کیا۔ مجھے ایک ایسے بچے کو دیکھنے کا موقع بھی ملا جو قبل از وقت پیدا نہیں ہوا تھا۔ اس کے باوجو اس کا وزن محض۱ء۲؍ کلوگرام تھا۔ ایسے حالات میں بچوں کی نشوونما نہیں ہورہی ہے۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے:’’ اسماعیل ہانیہ کے بیٹوں کی شہادت جنگ کا آخری مرحلہ ہے‘‘

ادھر عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے غزہ میں مخدوش طبی حالات پر اپنے خدشات کااظہار کیا۔ اس کا کہناتھا، ’’ شدید بیمار افراد کو علاج کی غرض سے دوسری جگہوں پر منتقل کرنے کیلئے عارضی کے بجائے باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے۔ ‘‘
 الشفا اسپتال کی حالت غیر ہوگئی ہے۔ ا س بارے میں   ہنگامی طبی اقدامات متعلق `ڈبلیو ایچ او کے افسر تھانوس گارگاوانیس کا کہنا تھا، ’’ اسرائیلی فوج کے محاصرے اور حملوں کا سامنا کرنے والا الشفا اسپتال مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے جس کے آپریشن کے شعبے میں بہت بڑا گڑھا پڑ گیا ہے۔ اسپتال کے آکسیجن پلانٹ، لیباریٹری کے سازوسامان، سی ٹی اسکینر اور دیگر مشینوں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ اس تباہی کے بعد الشفا۶۰؍ سال پہلے کا کوئی اسپتال محسوس ہوتا ہے جب ایکسرے اور لیباریٹری ٹیسٹ نہیں ہوتے تھے۔ ‘‘
  یادرہےکہ گزشتہ دنوں اسپتال کے احاطے میں دفن لاشیں بھی برآمد ہوئی تھیں۔ `ڈبلیو ایچ او اور دیگر اداروں نے ان کی مناسب انداز میں تدفین یقینی بنانے کی کوشش کی ہے اور مستقبل میں شناخت کی غرض سے ان کے ڈی این اے بھی لئے گئے ہیں۔ ڈبلیوایچ او کا کہنا تھا، ’’ ادارہ ایک مرتبہ پھر واضح کرنا چاہتا ہےکہ کسی بھی طرح کے حالات میں طبی مراکز کو جنگی کارروائیوں کا ہدف نہیں بنانا چاہئے۔ ‘‘
 ادھر جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس امدادی گودام، طبی مراکز اور اسکول بھی تبا ہوگئے ہیں۔ علاقے میں کوئی بھی عمارت محفوظ نہیں ہے اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔ عارضی پناہ گاہوں  میں بڑے پیمانے پر خوراک، پانی اور علاج معالجہ کی سہولیات درکار ہیں۔ مقامی افراد نے بتایا ہے کہ انہیں خوراک اور پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے جبکہ النصر اور الاعمل اسپتال کی تباہی کے بعد طبی خدمات دستیاب نہیں ہیں۔ اسی طرح خان یونس میں سڑکیں اور کھلی جگہیں بغیرپھٹے ہوئےگولہ بارود سے اٹی ہوئی ہیں جس سے شہریوں خصوصاً بچوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ دنوں اس علاقے کا دورہ کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم کو خان یونس میں بڑے چوراہوں پر اورا سکولوں کے اندر ایسے تقریباً ایک ہزار بم ملے ہیں۔ 
 ادھر اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد سے غزہ پٹی میں جاری اسرائیلی حملوں کی وجہ سے جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد۳۳؍ ہزار۶۳۴؍ اور زخمیوں کی تعداد بڑھ کر۷۶؍ ہزار۲۱۴؍ ہو گئی ہے۔ وزارت صحت کے مطابق گزشتہ۲۴؍ گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج کی کارروائی میں ۸۹؍فلسطینی شہید جبکہ ۱۲۰؍زخمی ہوئے۔ کچھ متاثرین کی لاشیں ملبے میں دبی ر ہیں یا گلیوں میں یوں بکھری پڑی رہیں کیونکہ اسرائیلی فورسز نے ایمبولینسوں اور شہری دفاع کی ٹیموں کو ان تک پہنچنے سے روک دیا۔ 
صورتحال پر فلپ لازارینی کا تبصرہ 
  قبل ازیں فلسطین کی صورتحال پر فلسطینی پنا ہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کی ’اونروا‘( یواین آ ر ڈبلیو اے )کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے تبصرہ کیاکہ فلسطینی مسلمانوں کیلئے ماہ رمضان کا اختتام ایسے حالات میں ہوا ہے جب انہیں حالیہ تاریخ کی انتہائی ظالمانہ جنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے ایکس پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا تھا، ’’ فلسطینیوں کیلئےانتہائی خراب حالات، تکالیف اور دکھی دل کے ساتھ عیدالفطر کی خوشی منانا بہت مشکل ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK