اسرائیل کے مفادات کے تحفظ اور ترجیح کا الزام، امریکی صدر کی ۲۰؍ نکاتی پیشکش کو فلسطینی عوام کے خلاف مسلسل جارحیت کا نسخہ قرار دیا گیا،حماس غوروخوض کےبعد جواب دیگا
EPAPER
Updated: October 01, 2025, 12:29 AM IST | Washington
اسرائیل کے مفادات کے تحفظ اور ترجیح کا الزام، امریکی صدر کی ۲۰؍ نکاتی پیشکش کو فلسطینی عوام کے خلاف مسلسل جارحیت کا نسخہ قرار دیا گیا،حماس غوروخوض کےبعد جواب دیگا
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کو واشنگٹن میں اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد غزہ میں تنازع کے حل کیلئے جنگ بندی کا ۲۰؍نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے جس میں حماس کے ہتھیار ڈالنے اور غیر مسلح ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔اس کے ساتھ ہی اس منصوبہ میں غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلاء اور تباہ شدہ بستیوں کی تعمیر نو کا وعدہ شامل ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ نے وہائٹ ہاؤس میں نیتن یاہو کا خیرمقدم کیا، جہاں انہوں نے بند کمرے میں ملاقات کی۔ اِس ملاقات کے بعد ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں مذکورہ منصوبہ کا اعلان کیا اور اس کیلئے ’’کئی عرب اور مسلم ممالک‘‘کا شکریہ ادا کیا۔ مذکورہ ۲۰؍ نکاتی منصوبے کو ٹرمپ کا ’غزہ تنازع کے خاتمے کا جامع منصوبہ‘ کہا جارہا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگر دونوں فریق اس تجویز پر راضی ہو جاتے ہیں تو ’جنگ فوری طور پر ختم ہو جائے گی۔‘اس کے باوجود غزہ میں جاری خونریزی اور نسل کشی بند ہونے پر خدشات برقرار ہیں۔
ٹرمپ کے پیش کردہ منصوبہ میں کیا ہے؟
ٹرمپ کے پیش کردہ ۲۰؍ نکاتی منصوبے میں۷۲؍ گھنٹوں کے اندر یرغمالوں کی رہائی، حماس کو غیر مسلح کرنے اور غزہ کیلئے عبوری گورننگ باڈی کے قیام کو یقینی بنانے کے نکات شامل ہیں۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو نے وہائٹ ہاؤس میں ایک ساتھ کھڑے ہو کر غزہ میں ۷؍اکتوبر سے جاری جنگ کے خاتمے کیلئے امریکی امن منصوبے پر اسرائیل کے اتفاق کا اعلان کیا۔ ٹرمپ نے اپنی تجویز پیش کرتے ہوئے اسے ’امن کا تاریخی دن‘ قرار دیا اور اسرائیل کی باضابطہ منظوری کے ۷۲؍ گھنٹوں کے اندر فوری جنگ بندی اور باقی تمام یرغمالوں کی رہائی کا وعدہ کیا۔ اس منصوبے میں مرحلہ وار اسرائیلی انخلاء، حماس کو غیر مسلح کرنے، سیکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور ٹرمپ کی صدارت میں غزہ کیلئےعارضی بین الاقوامی گورننگ باڈی کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس منصوبے میں غزہ کو شدت پسندی اور دہشت گردی سے پاک زون بنانے کا تصور پیش کیا گیا ہے جو اسرائیل یا پڑوسی ممالک کیلئے خطرہ نہ ہو۔
ٹرمپ نے کہا کہ اگر حماس قبول کرتی ہے تو تجویز کے مطابق تمام بقیہ یرغمالیوں کی فوری رہائی کی جائے، لیکن کسی بھی صورت میں ۷۲؍ گھنٹے سے زیادہ دیر نہیں ہونی چاہئے۔
فلسطینیوں نے تجویز کو مذاق قراردیا
حماس کے قریبی ذرائع نے کہا کہ اسے قطری اور مصری ثالثوں کے ذریعے امن منصوبہ کی تفصیلات موصول ہو گئی ہیں اور سرکاری جواب دینے سے قبل وہ اس پر غور وخوض کررہا ہے۔ دوسری جانب خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بعض فلسطینی گروہوں اور عوام نے اس تجویز کو ’’مذاق ‘‘قرار دیتے ہوئے اسے اسرائیلی قیدیوں کی آزادی کا حربہ بتایا۔ فلسطینی گروپ اسلامی جہاد نے اس منصوبے کو’’فلسطینی عوام کے خلاف مسلسل جارحیت کا نسخہ‘ ‘قرار دیا۔گروپ نے کہا ہے کہ’’ اس کے ذریعے، اسرائیل، امریکہ کے ذریعے وہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو وہ جنگ کے ذریعے حاصل نہیں کر سکا۔‘‘ جنگ زدہ غزہ کے مقامی افراد نے بھی اس منصوبے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے اسے قیدیوں کی رہائی کی ایک چال قرار دیا اور اندیشہ ظاہر کیا کہ اس سے جنگ ختم نہیں ہو گی۔
اسرائیل کے جارحانہ تیور
ٹرمپ کے ۲۰؍ نکاتی منصوبہ میں حماس کے غیر مسلح ہونے کی شرط شامل ہے۔ یہ وعدہ کیا گیا ہےکہ اس صورت میں حماس کے لیڈران کو معافی دیکر انہیں کسی بھی ملک میں جانے کی اجازت دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ٹرمپ اور نیتن یاہو نے دھمکی دی ہے کہ منصوبہ کو قبول نہ کرنے کی صورت میں حماس نتائج کو بھگتنے کیلئے تیار رہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکہ سے اپنے ملک لوٹتے ہی پھر تلخ رویہ اپنایا اور دھمکی بھرے انداز میں امریکی صدر کے۲۰؍ نکاتی امن منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہم نے اسے قبول کرلیاہے، لیکن اگر حماس نے نہیں کیا تو اکیلے ہی اس جنگ کو ہمیشہ کیلئے ختم کردیں گے۔‘‘
’فلسطینی ریاست کے قیام سےاتفاق نہیں‘
انھوں نے غزہ جنگ بندی سے متعلق مجوزہ منصوبے کے اعلان کے چند گھنٹوں کے بعد ہی کہاکہ امریکی صدر سے گفتگو میں فلسطینی ریاست کے قیام پر اتفاق نہیں کیا ہے اور فلسطینی ریاست کی بات معاہدےمیں بھی نہیں لکھی گئی ہے۔وہیں دوسری جانب حماس کی ٹیم نے ثالثوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ منصوبہ کا مطالعہ کریں گے۔امید ہے کہ وہ ایک دو روز میں اپنے موقف سے آگاہ کر دیں گے۔
منصوبہ کو عرب ممالک کی تائید
صدر ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیلی اور عرب رہنما منصوبے کو تسلیم کرچکے ہیں، معاہدے پر اب صرف حماس کے جواب کا انتظار ہے،بصورت دیگر بہت افسوسناک انجام ہوگا۔مصر اور قطر جو حماس اور اسرائیل کے درمیان متعدد جنگ بندی مذاکرات میں ثالثی کرچکے ہیں، نے حماس کو تجویز پیش کی اور ’معروضی جائزے‘ پر زور دیا۔ انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر، اردن، متحدہ عرب امارات اور مصر کی جانب سے جاری کئے گئے مشترکہ بیان میں اس منصوبے کو ’مخلصانہ کوشش‘ قرار دیا گیاہے۔