Inquilab Logo

’’اسرائیل جانے پر آمادہ افراد کی قطارملک میں بے روزگاری کا ثبوت ہے‘‘

Updated: May 06, 2024, 8:20 PM IST | Kolkata

مرکزی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک پربھاکر کا کہنا ہے کہ ملک میں بے روزگار نوجوانوں کی شرح ۴۰؍ فیصد تک پہنچ چکی ہے اور ہندوستان اُن ملکوں کی صف میں پہنچ چکا ہے جہاں بے روزگاری بہت زیادہ ہے مگر وہ پانچویں سب سے بڑی معیشت ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے۔

Parkala Prabhakar. Photo: INN
پرکلا پربھاکر۔ تصویر: آئی این این

اسرائیلی تقرری مراکز کے سامنے پورے ملک میں نوجوانوں کی طویل قطاریں ہندوستان میں پھیلی ہوئی شدید بے روزگاری کا ثبوت پیش کررہی ہیں۔‘‘ یہ بات معروف مصنف اور ماہر معاشیات پرکلا پربھاکر نے گزشتہ دِنوں جادَو پور یونیورسٹی میں کہی۔ واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت نے ہندوستانی ورکرس کو کام دینے کے مقصد سے کئی مراکز قائم کئے ہیں تاکہ اُنہیں ۹۰؍ ہزار فلسطینیوں کی جگہ پر کام دیا جائے۔ یہ وہ ۹۰؍ ہزار فلسطینی ہیں جن کا ورک پرمٹ، ۷؍ اکتوبر کے حماس کے حملے کے بعد منسوخ کردیا گیا تھا۔ پرکلا پربھاکر کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے نوجوان، جنگ زدہ ملک میں بھی ملازمت کیلئے جانے پر آمادہ ہیں تو اس سے اندرونِ ملک بے روزگاری کی بھیانک صورت حال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پرکلا پربھاکر جادَو پور یونیورسٹی میں منعقدہ ایک پینل ڈسکشن میں اظہار خیال کررہے تھے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: اسرائیلی فوج کا فلسطینیوں کو مشرقی رفح ہجرت کا حکم

پربھاکر کے الفاظ میں: ’’سیکڑوں نوجوان، یوپی، راجستھان، ایم پی اور اے پی میں قائم کئے گئے اسرائیل کے تقرری مراکز پر قطار لگائے کھڑے ہیں۔ مَیں نے ایسے ہی ایک مرکز کا دورہ کرکے جائزہ لینے کی کوشش کی اور چند نوجوانوں سے سوال کیا کہ آپ اسرائیلی مرکز کے سامنے کھڑے ہیں جس کے اہلکار آپ کو منتخب کرکے غزہ لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں جنگ چل رہی ہے؟ اس پر اُن کا جواب تھا کہ اُنہیں علم ہے کہ وہاں جنگ جاری ہے۔ یہ سننے کے بعد میں نے اُن سے مزید پوچھا کہ آپ کیوں جانا چاہتے ہیں؟ تو اُن کا جواب تھا کہ یہاں بے روزگار رہ کر مرنے سے بہتر ہے کہ ہم غزہ جائیں، جب تک زندہ رہیں گے اپنے اہل خانہ کیلئے تھوڑی بہت رقم تو بھیج پائینگے! 
 جس پینل ڈسکشن میں مذکورہ اظہار خیال کیا گیا اس کی تفصیل ’’دی ٹیلی گراف‘‘ نے شائع کی ہے جس نے اس سے قبل بتایا تھا کہ ۶۴؍ ہندوستانیوں کا پہلا جتھہ اسرائیل کیلئے روانہ ہوچکا ہے، یہ نوجوان اُن شعبوں میں کام کرینگے جن میں گزشتہ سال ۷؍ اکتوبر سے پہلے فلسطینی نوجوانوں کی اکثریت برسرکار تھی۔ اخبارِ مذکور کے مطابق ۱۵؍ سو ہندوستانی نوجوان اسرائیل لے جائے جائینگے۔ 

یہ بھی پڑھئے: کرناٹک: خاتون نے معذور بیٹے کو مبینہ طور پر مگر مچھوں سے بھرے دریا میں پھینک دیا

پرکلا پربھاکر کے بقول: ہمارے ملک میں بے روزگاری کی شرح (۲۴؍ فیصد) دُنیا کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ اگر آپ دستیاب ڈیٹا کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو پائیں گے کہ ۲۰؍ سے ۲۵؍ سال کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح ۴۰؍ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ہندوستان کے بے روزگار نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے ہندوستان یمن، ایران اور آرمینیا کی صف میں کھڑا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو تیز ترین رفتار کی معیشت ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے۔ اُنہیں یہ زعم بھی نہیںہے کہ وہ دُنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہیں۔ بنگلہ دیش میں بے روزگاری ہم سے آدھی ہے، یہ کیسی ستم ظریفی ہے!
 یاد رہے کہ پرکلا پربھاکر نے، جو مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کے شوہر ہیں، حال ہی میں ایک کتاب تصنیف کی ہے جس کا نام ہے ’’نئے ہندوستان کا دی کروکڈ ٹمبر‘‘۔ اس کتاب میں اُنہوں نے گزشتہ برسوں کے حوالے سے ہندوستان کی موجودہ معاشی صورت حال کا احاطہ کیا ہے۔ اُنہوں نے گھریلو آمدنی کے بارے میں بھی بتایا کہ یہ تاریخ کی کمترین سطح پر ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملک کی ایک فیصد آبادی کے پاس ملک کی ۴۰؍ فیصد دولت ہے۔ یہ بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ہمارا ملک بھوک کے عالمی جدول (ورلڈ ہنگر انڈیکس) میں بہت کم، بہت ہی کم بلکہ مایوس کن سطح پر ہے لیکن ہمارے مرکزی وزراء اس کو تسلیم نہیں کرتے۔ اُن کے سامنے جب یہ اعدادوشمار لائے جاتے ہیں تو اُنہیں فوری طور پر مسترد کردیا جاتا ہے۔ وہ بلا تاخیر کہتے ہیں کہ یہ ہندوستان مخالف پروپیگنڈہ کا حصہ ہے۔ 
اس سے قبل ۱۶؍ اپریل کو چنئی میں منعقدہ ایک مذاکرہ میں پرکلا پربھاکر نے کہا تھا کہ عدم مساوات، بے روزگاری اور افراط زر ملک کی تاریخ میں سب سے اونچی سطح پر ہیں۔ اس موقع پر اُنہوں نے کہا تھا کہ بے روزگار نوجوانوں میں ۶۵؍ فیصد ایسے ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں۔ اس موقع پر اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کارپوریٹ ٹیکس میں تخفیف، پروڈکشن لنکڈ انسینٹیو دینے اور ۲۵؍ لاکھ کروڑ کا کارپوریٹ قرض معاف کردینے کے باوجود گھریلو سرمایہ کاری کی شرح ۳۰؍ سے ۱۹؍ فیصد ہوگئی ہے۔ دوران گفتگو اُنہو ںنے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی تھی کہ دُنیا کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے مگر ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے لئے اس میں جگہ نہیں ہے، نہ تو مرکز میں انہیں جگہ دی گئی نہ ہی یوپی، کرناٹک اور گجرات جیسی ریاستو ںمیں۔ ذہن نشین رہے کہ پرکلا پربھاکر وزیر اعظم مودی کی قیادت میں جاری مرکزی حکومت کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک ہیں جو اِس حکومت کی پالیسیوں پر تسلسل کے ساتھ نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK