الگ الگ ۴؍ قطار وںمیں کھڑے ہونے کےبعد دوا ملتی ہے، ۳؍ تا ۴؍گھنٹہ درکار، دوپہر ۱۲؍ بجے سونوگرافی بندہونے سے دور دراز کے مریض چکر کاٹنے پرمجبور
EPAPER
Updated: May 06, 2025, 11:37 PM IST | Iqbal Ansari | Mumbai
الگ الگ ۴؍ قطار وںمیں کھڑے ہونے کےبعد دوا ملتی ہے، ۳؍ تا ۴؍گھنٹہ درکار، دوپہر ۱۲؍ بجے سونوگرافی بندہونے سے دور دراز کے مریض چکر کاٹنے پرمجبور
کلوا میں واقع چھترپتی شیواجی مہارج میونسپل اسپتال و راجیو گاندھی میڈیکل کالج شہر کا مصروف ترین اسپتال مانا جاتا ہے۔بہتر علاج میسر ہونے کےسبب نہ صرف تھانے، کلوا، ممبرا اور دیوا بلکہ ٹی ایم سی کی حدود کے باہری علاقے کلیان، الہاس نگر اور بھیونڈی سے غریب مریض علاج کرواتے یہاں آتے ہیں جس کی وجہ سے آؤٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹ ( او پی ڈی) میں کافی بھیڑ ہوتی ہے اورمریضوں کو شدید دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھیڑ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر مریض کو کیس پیپر بنانے سے لے کر دوا لینےتک یکے بعد دیگرے کم از کم مختلف ۴؍قطاروں میں کھڑے ہونا پڑتا جس میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ اگر ڈاکٹر نے مریض کو سونو گرافی یا خون کی جانچ یا دیگر کوئی جانچ کیلئے بھیجا ہو تو وہ محکمہ بند ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے مریض اگلے دن دوبارہ اسپتال کا چکر لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
منگل کی صبح تقریباً ساڑھے ۱۱؍بجے جب نمائندۂ انقلاب کلوا اسپتال پہنچا تو سبھی وارا ڈ وں پر بھیڑ بھاڑ نظر آئی۔ کان کی تکلیف کا علاج کرانے کیلئے وارڈ نمبر ۲۵؍پر ۴۰؍ تا ۴۵؍مریضوں کی قطار لگی ہوئی تھی۔ قطار میں کھڑی ایک خاتون نے بتایا کہ اس وارڈ میں وہ ان کی ۱۳؍سالہ بیٹی کے کان میں تکلیف ہے جس کے علاج کیلئے وہ ممبرا سے یہاں آئی ہیں۔ اس وارڈ میں کان کے ساتھ ساتھ ناک اور گلے کے مریضوں کو بھی چیک کیا جارہا ہے۔ ایک مریض نے بتایاکہ وہ صبح ۹؍ بجے سے یہاں علاج کیلئے آیاہے لیکن اب تک (ساڑھے ۱۱؍بجے تک) اس کا نمبر نہیں آیا ۔ حالانہ وارڈ میں ۴؍ ڈاکٹر بیک وقت مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔ وارڈ نمبر ۲۵؍ جیسی ہی بھیڑ دیگر وارڈوں میںبھی تھی۔
دوا لینے کی قطار میں کھڑے تقریباً ۶۰؍ سالہ شخص نے بتایاکہ ’’ مَیں کلیان میں واقع ملنگ گڑھ کے پاس سے گلے کا علاج کرانے یہاں آیا ہوں۔ صبح پونے ۹؍ بجے گھر سےنکلا تھا اورمختلف لائن لگانے کے بعد دوا کی قطار میں پہنچ سکا ہوں۔ جب میں ڈاکٹر کے پاس پہنچاتو ڈاکٹر نے گلے کی سونوگرافی کروانے کہا۔سونوگرافی کے وارڈ میں گیا تو بتایا گیا کہ ۱۲؍بجے سونو گرافی بند ہوگئی، لہٰذا اب مجھے اس کیلئے ایک بار پھر آنا پڑےگا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ’’ مَیں ایک کارخانہ میں کام کرتا ہوں اور بار بار کام چھوڑ کر نہیں آسکتا۔ چھٹی کروں گا تو تنخواہ کاٹ لی جائے گی اور جب تنخواہ نہیں ملے گی تو گزر بسر کیسے ہوگا؟ پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس ہزاروں روپے فیس نہیں دے سکتا اسی لئے یہاں کےچکر لگا رہا ہوں۔اب جب کارخانے میں کام نہیں ہوگا تب سونوگرافی کیلئے آؤں گا ۔ ‘‘
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کلیان میں کلیان ڈومبیولی میونسپل کارپوریشن کا کوئی اسپتال نہیں ہےکیا؟ انہوںنے کہاکہ’’ ایک اسپتال ہے لیکن وہاں علاج کی بہتر سہولتیں نہیں اور اسی لئے تقریباً ایک چکر کے ۱۰۰؍ روپے خرچ کر کے کلوا میونسپل اسپتال آتا ہوں۔ مجھے یہاں علاج کرواتے ہوئےایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور مرض میں ۲۵؍تا ۳۰؍ فیصد کا افاقہ ہے۔‘‘
اسپتال کے احاطے میں بھیڑ اور قطاروں سے تھک کر کئی خواتین قطاروں کے درمیان کھلی جگہیں میں سو رہی تھیں جبکہ متعدد نے اپنے ساتھ ناشتہ بھی لایا تھاجو بچوں کے ساتھ کھا رہی تھیں۔ دوا کی قطار میں کھڑی ایک خاتون نے یہ بتایا کہ دوا لینے سے قبل ایک کاؤنٹر پر لائن لگا کر محض دستخط لینی پڑتی ہے ، اگر اسے ختم کر دیا جائے تو مریضوں کاکم از کم آدھا گھنٹہ بچ سکتا ہے۔
اسپتال کی خدمات میں سے تعلق جب نمائندۂ انقلاب اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ انیرودھ مزگاؤنکر سے را بطہ قائم کرنے ان کے آفس پہنچا تو کیبن کےباہر بیٹھی ایک خاتون نے بتایاکہ وہ وزٹ پر گئے ہیں۔ بعد میں فون رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ یہاں علاج بہتر ہوتا ہے اس لئے مریضوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور بھیڑ ہو رہی ہے۔ خدمات مزید بہتر کرنے سے متعلق پوچھنے پر انہوں نے بتایاکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے البتہ دوا دینے کے کاؤنٹر کو اسپتال کے مین گیٹ کے پاس منتقل کرنے کا کام جاری ہے۔دوا لینے سے قبل دستخط لینے سے متعلق استفسار پر افسر نے بتایا کہ یہ دفتری کارروائی ہے۔ او پی ڈی کے مریضوں کی تعداد سے متعلقہ پوچھنے پر افسر نے کہا کہ’’آپ دفترآکر اپنا شناختی کارڈ دکھانےکے بعد بات کیجئے۔‘‘
واضح رہے کہ اگست ۲۰۲۳ء میں اسپتال میں ایک دن میں ۱۷؍ اموات ہوئی تھیں جس کےبعد اسپتال شہ سرخیوں میں آ گیا تھا۔