Inquilab Logo Happiest Places to Work

مدارس بورڈ کے تحت چلنے والے اُترپردیش کے ۲۱۹؍ مدارس کے ذمہ داران کیخلاف کارروائی کی اجازت

Updated: September 12, 2023, 9:41 AM IST | Lucknow

الہ آباد ہائی کورٹ نے مدرسہ منتظمین کی اپیل کوخارج کرتے ہوئے ایس آئی ٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد کا راستہ ہموار کردیا ، جس میں مدارس کے ذمہ داران کے علاوہ ۶؍ افسروں کیخلاف کارروائی کی سفارش کی گئی تھی

This decision of the court has made madrasa officials nervous
عدالت کے اس فیصلے نے مدارس کے ذمہ داران کو بے چین کردیا ہے

 الٰہ آباد ہائی کورٹ کےایک اہم فیصلے سےیوپی اقلیتی بہبود محکمے کے۶؍ افسروں،اعظم گڑھ کے ۲۱۹؍ مدرسوں کے ذمہ دارن اور ۱۱۰ ؍ اساتذہ کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ عدالت نے حکومت کو ان سبھی کے خلاف کارروائی کی اجازت  دے دی ہے۔ ان تمام کے خلاف ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں خاطی قرار دیا تھا، جس کے خلاف متاثرین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔یہ حکم جسٹس شیلندر شتیج نے اعظم گڑھ کے مدرسہ انجمن صدیقیہ جامعہ نورالعلوم اور دیگر کی انتظامی کمیٹی کی جانب سے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو چیلنج کرنے والی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے دیا ہے۔
 اعظم گڑھ میں فرضی مدارس چلنے کی شکایت پر  ۲۰۱۷ء میں حکومت نے جانچ کیلئے ایک ایس آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ جانچ کے بعد ایس آئی ٹی نے رپورٹ دی تھی کہ اعظم گڑھ کے۳۱۳؍ میں سے ۲۱۹؍ مدارس صرف کاغذ پر چل رہے ہیں۔اس نے اپنی رپورٹ ۳۰؍ نومبر۲۰۲۲ء کو یوپی حکومت کے چیف سیکریٹری کی صدارت میں تشکیل دی گئی کمیٹی کے سامنے پیش کی تھی۔ رپورٹ میں فرضی مدرسہ چلانے والوں اور محکمہ اقلیتی بہبود و مدرسہ بورڈ کے افسران کے خلاف معاملہ درج کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ جانچ رپورٹ میں یوپی اقلیتی بہبود محکمے کے۶؍ افسروں، ۲۱۹ ؍مدرسوں کے منیجروں اور ۱۱۰؍ مدارس کے ٹیچروں کے خلاف سنگین دفعات میں ایف آئی آر کرانے کے ساتھ اُن مدارس کی منظوری واپس لینے کی بھی سفارش کی تھی۔ ان ۶؍ افسروں میں مدرسہ بورڈ کے رجسٹرار رہے جاوید اسلم،طاہر اقبال اور محمد طارق کے ساتھ اعظم گڑھ میںضلع اقلیتی بہبود کے افسرکے طور پر تعینات رہے پربھات کمار،لال من اورعقیل احمد خان کے نام شامل  ہیں۔ان کے ساتھ ہی اعظم گڑھ ضلع اقلیتی بہبود دفترمیں تعینات تین کلرکوں (منی رام،سرفراز اوراوم پرکاش )کا نام بھی قصورواروں کی اس فہرست میں شامل ہے۔ ایس آئی ٹی  نے ان سبھی سرکاری ملازمین کو اپنے فرض کی ادائیگی میں ایمانداری نہ برتنےکا قصوروار قرار  دیا تھا اور ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔
 ا یس آئی ٹی نےاپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مذکورہ افسروں نے حکومتی حکم ناموں اور مدرسہ بورڈ کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعلقہ مدرسوں کو منظوری دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی یہ لوگ مدرسوں کاریکارڈ غائب کرنے اور سرکاری رقم کے غبن میں بھی شامل رہےہیں۔ایس آئی ٹی کی سفارشات پر عمل کرتے  ہوئےیوپی حکومت نے  نامزد افسروں کے خلاف محکمہ جاتی کی کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے محکمہ اقلیتی بہبود کی ڈائریکٹر جے ریبھاکو جانچ افسر مقررکیا تھا۔
  مدرسہ منتظمین نے ایس آئی ٹی کی اس جانچ رپورٹ کو یکطرفہ اورجانب دارانہ قرار دیتے ہوئے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ ان کا کہنا تھاکہ تفتیش کے دوران انہیں اپنا موقف پیش کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ۔ انہوں نے یکطرفہ رپورٹ کی بنیاد پر مدرسہ منتظمین کے خلاف کارروائی کو انصاف کے فطری اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کیا تھا لیکن عدالت نے ان کی باتوں کو قبول کرنے انکار کردیا اور  درخواست خارج کر دی۔   ایس آئی ٹی کی مذکورہ رپورٹ میں اس بات کا بھی دعویٰ کیا گیا ہےکہ اُن ۲۱۹ ؍ میں سے ۳۹؍ مدرسے ایسے  ملے ہیں جنھوں نے  مدرسہ جدیدکاری اسکیم کےتحت حکومت کا فنڈ بھی حاصل کیا اور ۱۱۰ ؍ اساتذہ کو تقریباً ۶۲؍لاکھ ۸۴ ہزار روپے بطور اعزازیہ بھی ادا کیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK