Inquilab Logo Happiest Places to Work

جدیدتکنیک سے مسروقہ اور گمشدہ فون بازیاب کرانے میں پولیس کامیاب

Updated: August 25, 2025, 11:07 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

۲؍ماہ سے روزانہ ۱۲۵؍ فون برآمد کئے جارہے ہیں ۔ ہزاروں فون مالکان کو لوٹائے جاچکے ہیں۔ اکثر معاملات میں لوگوں نے کوریئر کے ذریعے یا خود پولیس اسٹیشن پہنچ کر فون لوٹایا

Recovered mobile phones while a police officer returns a person`s mobile phone.
برآمد کئے گئے موبائل فون جبکہ پولیس افسرایک شخص کو اس کا موبائل فون لوٹاتے ہوئے۔

 عام طور پر موبائل فون چوری ہونے پر پولیس میں شکایت درج کروانے سے فون واپس نہیں ملتا تھا جس کی وجہ سے لوگ  قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے فون چوری کی شکایت درج کروایا کرتے تھے لیکن اب ممبئی پولیس نے   ایسے معاملات کو ترجیحی طور پرحل کرنا شروع کیا ہے اور اس کیلئے جدید تکنیک استعمال کررہی ہے جس میں اسے کامیابی ملی ہے اور لوگ یا تو خود دوسروں کا فون پولیس اسٹیشن پہنچا رہے ہیں یا پھر کوریئر سے بھیج رہے ہیں۔ 
 ممبئی پولیس نے چوری اور گم ہونے والے موبائل فون تلاش کرکے مالکان کو لوٹانے کی مہم جون میں شروع کی تھی اور تب سے ۲۱؍ اگست تک ۸؍ ہزار سے زائد فون ان کے مالکان کو واپس لوٹائے جاچکے ہیں۔
فون کیسے تلاش کئے جارہے ہیں؟
 یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ چوری اور گم ہوجانے والے موبائل فون کو تلاش کرنے کیلئے پولیس افسران  اور اہلکاروں کو پولیس اسٹیشن سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں  آتی۔ یہ کام ’ڈپارٹمنٹ آف ٹیلی کمیونیکیشن‘ کی ایک شاخ ’سینٹرل ایکویپمنٹ آئیڈینٹٹی رجسٹر(سی ای آئی آر)‘ کے سینئر افسران کی نگرانی میں کیا جارہا ہے۔ 
 اگرچہ ’آئی ایم ای آئی(انٹرنیشنل موبائل ایکویپمنٹ آئیڈینٹٹی) کے ذریعہ موبائل فون کو تلاش کرنے کا طریقہ پرانا ہے لیکن اب یہ کیا جارہا ہے کہ جب کوئی شخص موبائل فون گُم ہونے کی شکایت درج کرواتا ہے تو مذکورہ محکمہ کی مدد سے فون کے آئی ایم ای آئی نمبر کی مدد سے اس کا سِم کارڈ بلاک کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے فون قابل استعمال نہیں رہتا۔ اس کے بعد جب کوئی شخص اس فون میں نیا سِم کارڈ ڈالتا ہے تو محکمہ کے پورٹل پر اس کا ’نوٹیفکیشن‘ آجاتا ہے اور متعلقہ افسران کو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ فون استعمال کیا جارہا ہے۔
 یہ نوٹیفکیشن آنے پر اس کام کا انچارج افسر اس نئے نمبر پر بذات خود فون کرکے اسے استعمال کرنے والے کو مطلع کرتا ہے کہ یہ فون چوری کا ہے۔
فون واپس کیسے ملتا ہے؟
 پولیس کے مطابق جب فون استعمال کرنے والے کو پولیس سے فون کال موصول ہوتی ہے تو اکثر معاملات میں لوگ فون کال کاٹ دیتے ہیں۔کئی معاملات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ فون کسی دیگر ریاست میں استعمال کیا جارہا ہوتا ہے اور زبان معلوم نہ ہونے کی وجہ سے گفتگو کرنے میں دقت پیش آتی ہے۔تاہم اس کے بعد کا قدم موبائل فون واپس ملنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
 وہ یہ ہوتا ہے کہ خود کار نظام سے ایک میسیج اس فون پر جاتا ہے جس میں تحریر ہوتا ہے کہ اگر یہ فون پولیس کو  لوٹا دیا گیا تو فون استعمال کرنے والے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، بصورت دیگر اسے گرفتار کرلیا جائے گا۔ اس پیغام میں پولیس اسٹیشن میں موبائل فون ’ریکوری‘ کرنے والے افسر کا نام بھی تحریر ہوتا ہے۔ اس میسیج میں یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ اگر موبائل فون استعمال کرنے والا کسی دیگر شہر یا ریاست میں ہے تو وہ اس فون کو ذاتی طور پر پہنچانے کے بجائے کوریئر سے بھی پولیس اسٹیشن کے پتہ پر بھیج سکتا ہے۔
 اس کام پر مامور ایک افسر کے مطابق عام طور پر میسیج ملنے کے بعد فون استعمال کرنے والے خود ہی فون پر رابطہ قائم کرتے ہیں اور عام طور پر یہی جواز پیش کرتے ہیں کہ انہیں فون کہیں پڑا مل گیا تھا اور چونکہ مالک کا کچھ پتہ نہیں چلا اس لئے انہوں نے اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ کچھ معاملات میں لوگ فون لوٹانے کیلئے خود ہی پولیس اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں۔
 پولیس افسر کے مطابق ایسے افراد سے چند سوالات کئے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ آیا ان کے خلاف ماضی میں ایسا کوئی مجرمانہ کیس درج تھا یا نہیں مثلاً نام پتہ وغیرہ پوچھا جاتا ہے۔ اگر ان کے خلاف کوئی کیس نہیں ہوتا تو انہیں متنبہ کرکے واپس جانے دیا جاتا ہے کہ آئندہ کبھی اس طرح انجان فون وغیرہ اٹھا کر اپنے پاس نہ رکھ لیں۔ پھر ان سے فون لے کر اصل مالک کو دے دیا جاتا ہے۔
 واضح رہے کہ جون سے ۲۱؍ اگست تک جتنے فون برآمد کئے گئے ہیں، ان کے حساب سے روزانہ ۱۲۵؍ فون واپس مل رہے ہیں۔ایک سینئر افسر کے مطابق عام شہری پولیس کیس وغیرہ سے بچنا چاہتے ہیں اس لئے اس معاملے میں سب سے بڑی راحت یہی دی جاتی ہے کہ اگر شرافت سے فون لوٹا دیا گیا تو کیس درج نہیں کیا جائے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK