مظاہرین نے کہا :سوال الیکشن کمیشن سے کئے جاتے ہیں، جواب بی جے پی کیوں دیتی ہے؟کانگریس کے ریاستی صدر نے وزیراعلیٰ پر سخت تنقید کی
EPAPER
Updated: August 08, 2025, 11:35 PM IST | Iqbal Ansari | Mumbai
مظاہرین نے کہا :سوال الیکشن کمیشن سے کئے جاتے ہیں، جواب بی جے پی کیوں دیتی ہے؟کانگریس کے ریاستی صدر نے وزیراعلیٰ پر سخت تنقید کی
لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی کی جانب سے دستاویزات اور شواہد کے ساتھ ۵؍ طرح سے بڑے پیمانے پر ووٹوں کی چوری کا پردہ فاش کرنے کے بعد ملک بھر میں سیاسی ہلچل مچ گئی ہے۔ راہل گاندھی کے الزامات کے بعدریاستی کانگریس نے جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے دادر میں راستہ روکو احتجاج کیا اور الیکشن کمیشن اور بی جے پی کے خلاف نعرے لگائے۔ یہ احتجاج تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا۔ اس موقع پر کانگریس کے ریاستی صدر نے سوالات کئے کہ ووٹ چوری سے ملک کا جمہوری نظام خطرہ میں پڑ گیا ہے تو حکومت اس سنگین معاملے پر خصوصی ٹیم کے ذریعے جانچ کیوں نہیں کر رہی ہے؟ جب بھی الیکشن کمیشن سے سوال کئے جاتے ہیںتو اس کا جواب بی جے پی کیوں دیتی ہے؟کیا وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس الیکشن کمیشن کے دلال ہے یا وکیل؟ اس احتجاج میں ریاستی کانگریس کے نائب صدر موہن جوشی، راجن بھوسلے، کشور کہنیرے، چیف ترجمان اتل لونڈھے، اننت گاڈگِل سمیت سیکڑوں کارکنان اور عہدیداران شریک ہوئے۔
راستہ روکو احتجاج سے قبل تلک بھون (دادر) میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہرش وردھن سپکال نے انتخابی نظام پر سخت تنقید کی اور کہا کہ راہل گاندھی نے نہایت مدلل انداز میں انتخابی گھپلے کی پرتیں کھول کر رکھ دیں اور یہ واضح کیا کہ کس طرح جمہوریت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب اتنا بڑا انکشاف ہو چکا ہے تو حکومت کو فوری طور پر ایس آئی ٹی تشکیل دینی چاہئے تھی یا کسی سپریم کورٹ کے سبکدوش جج سے غیرجانبدارانہ انکوائری کروانی چاہئے تھی لیکن الٹا راہل گاندھی سے ہی حلف نامہ مانگا جا رہا ہے جو کہ نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ غیر آئینی بھی ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ الیکشن کمیشن کے ۱۹۶۰ءکے قواعد کے مطابق اگر کوئی شکایت یا اعتراض موصول ہوتا ہے تو قاعدہ۱۷، ۱۸؍ اور ۱۹؍ کے تحت فوراً تفتیش شروع کی جانی چاہئے مگر تاحال کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ اس پر خاموشی خود بہت کچھ بیان کرتی ہے۔
ہرش وردھن سپکال کے بقول راہل گاندھی کی جانب سے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سوال اٹھانے کے بعد بی جے پی لیڈران نے سطحی زبان استعمال کرتے ہوئے ان پرحملے تیز کر دیئے ہیں۔ریاستی وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس کی زبان سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ الیکشن کمیشن کے دلال، وکیل یا ترجمان ہوں۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ان کی باتوں سے نہ صرف غرور جھلکتا ہے بلکہ غرور کی بدبو بھی آتی ہے۔ وہ چیف منسٹر نہیں بلکہ ’چِیپ منسٹر‘ ہیں جو اس وقت بولتے ہیں جب الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر سوال اٹھتے ہیں۔ سوالات الیکشن کمیشن سے کئے جاتے ہیں لیکن جوابات بی جے پی دیتی ہے، مرکز میں وزیر داخلہ امیت شاہ اور ریاست میں وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس دیتے ہیں، آخر کیوں؟ گہری خاموشی اور جلد بازی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے‘۔
سپکال نے کہا کہ راہل گاندھی کے انکشافات سے الیکشن کمیشن اور بی جے پی کے درمیان مبینہ گٹھ جوڑ کی پرتیں کھل رہی ہیں جس کا خوف بی جے پی اور فرنویس کے بیانات میں جھلکتا ہے۔ اگر کچھ بھی غلط نہیں تھا تو پھر سچ سامنے آنے سے گھبراہٹ کیوں؟ بی جے پی کے اس سوال کے جواب میں کہ کانگریس نے پہلے اعتراض کیوں نہیں کیا؟ سپکال نے کہا کہ بی جے پی اس طرح کے سوالات اٹھا کر عوام کو گمراہ کرنا چاہتی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس نے انتخابی عمل کے دوران اور بعد میں بھی کئی مرتبہ اعتراضات درج کرائے ہیں۔ شکست خوردہ امیدواروں نے متعلقہ اعلیٰ عدالتوں میں عرضیاں بھی دائر کیں اور الیکشن کمیشن کو ثبوت بھی پیش کئے گئے تھے۔