جرمنی نے تل ابیب کو غزہ میں قابل استعمال فوجی سازوسامان کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کیا۔ بلجیم نے صہیونی سفیر کو طلب کرکے برہمی کااظہار کیا،غزہ پر قبضہ کو ’’ناقابل قبول ‘‘ قرار دیا۔ نیدرلینڈ، اسپین، اسکاٹ لینڈ اور دیگر نے بھی فکرمندی کا اظہار کیا، جنگ بندی کا مطالبہ دہرایا۔ چین نے صہیونی ریاست سے ’’تباہ کن‘‘ منصوبہ کو فوراً رد کرنے اور جنگ روکنے کی مانگ کی۔
پورا غزہ تباہ ہوچکا ہے۔ شہری بھوکے پیاسے خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ تصویر: اے پی / پی ٹی آئی
غزہ شہر پر قبضہ کے اعلان پر پوری دنیا میں اسرائیل کی شدید مذمت ہو رہی ہے۔ عالمی برادری نے تل ابیب سے مزید جارحیت کے کسی بھی منصو بے سے باز آجانے کا مطالبہ تو کیا ہے مگر زبانی جمع خرچ سے آگے کوئی بڑھتا ہوا نظر نہیں آیا۔ البتہ جرمنی نے اسرائیل کو ’’غزہ میں قابل استعمال ‘‘فوجی سازوسامان کا ایکسپورٹ فوری طور پر بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بلجیم نے اسرائیلی سفیر کو طلب کرکےخونریزی روکنے اور مزید جارحیت سے باز رہنے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ چین نے صہیونی ریاست کے منصوبے کو ’’تباہ کن‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے فوراً رد کرنے اور جنگ روکنے کی مانگ کی ہے۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے البتہ اس معاملے میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دینے سے گریز کیا۔
جرمنی نے فوجی برآمدات روک دیں
جرمنی نے اسرائیل کو غزہ میں استعمال ہونے والا اسلحہ برآمد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جرمن چانسلر فریڈرِک مرز کا کہنا ہے کہ جرمنی اسرائیل کو وہ فوجی سامان نہیں دے گا جو غزہ میں استعمال ہو سکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ یہ سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائی کس طرح جائز مقاصد حاصل کرے گی۔ فریڈرِک مرز کا نے دوٹوک انداز میں اعلان کیا کہ ’’ جرمنی اگلے نوٹس تک غزہ میں استعمال ہونے والے فوجی سامان کی برآمد کی اجازت نہیں دے گا۔‘‘
اسرائیلی منصوبہ غلط اقدام ہے: ڈچ وزیر
ڈچ وزیر خارجہ کیسپر ویلڈ کیمپ نے اسرائیلی منصوبوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیتن یاہو حکومت کا غزہ میں کارروائیاں تیز کرنے کا منصوبہ غلط اقدام ہے۔ انہوں نے کہاکہ غزہ میں انسانی صورتِ حال پہلے تباہ کن ہے، اس میں فوری بہتری کی ضرورت ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غزہ فلسطینیوں کا ہے ڈچ وزیرِ خارجہ نے متنبہ کیا کہ کارروائیاں تیز کرنے کا فیصلہ یرغمالوں کی واپسی کیلئے بھی کارآمد ثابت نہیں ہو گا۔
اسپین، اسکاٹ لینڈ اور دیگر نے مذمت کی
اسپین کے وزیر خارجہ جوز مینوئل البیرس نے اسرائیلی کابینہ کے فیصلے پر فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم غزہ میں فوجی کارروائی میں تیزی کی پوری شدت سے مخالفت کرتے ہیں۔ اسے مزید تباہی اور عوام کیلئے پریشانیاں پیدا ہوں گی۔‘‘ انہوں نےفوری جنگ بندی، تمام یرغمالوں کی رہائی اور غزہ میں بڑی مقدار میں امداد کے داخلے کی راہ ہموار کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر جان سوینے نے بھی تل ابیب کے فیصلے پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ شہر پر قبضہ سے’’مزید انسانی بحران پیدا ہوگا۔‘‘ انہوں نے’ ایکس‘ پوسٹ پر اعلان کیا کہ ’’غزہ سٹی پر کنٹرول کا اسرائیلی فیصلہ قطعی ناقابل قبول ہے۔اس سے فلسطینی عوام کو درپیش شدید تر ہوجائےگا اور ٹکراؤ میں بھی اضافہ ہوگا۔ ‘‘ انہوں نےحملے روکنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’’عالمی برادری کو تل ابیب کو اس کے منصوبوں روکنا اور جنگ بندی کیلئے تیار کرنا چاہئے۔‘‘
بلجیم نے اسرائیلی سفیر کو طلب کیا
بلجیم کے وزیر خارجہ میکسیم پریووٹ نے اسرائیلی سفیر کو طلب کرکے غزہ شہر پر قبضہ کے اعلان کی پر زور مخالفت کی۔ انہوں نے ایکس پر اس کی اطلاع دی اور بتایا کہ ’’اسرائیلی سفیر کو طلب کرکے تل ابیب کے فیصلے کے تعلق سے بلجیم کے عدم اتفاق سے آگاہ کیاگیاہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’فلسطین کو نقشہ سے مٹادینے کے مقصد سے کئے جانےوالے یہ تمام اقدامات قبول نہیں کئے جاسکتے جو بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ ‘‘
برطانیہ نےبھی مخالفت کی
برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے بھی غزہ پر قبضے کے اسرائیلی فیصلے کو غلط قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ غزہ میں حملے مزید تیز کرنے کا اسرائیلی فیصلہ غلط ہے۔ اسرائیل اپنے فیصلے پر فوری نظر ثانی کرے، اسرائیلی اقدام تنازع کے خاتمے اور یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے میں مددگار نہیں ہوگا۔ اسٹارمر نے کہا ہے کہ اسرائیل کا یہ اقدام غزہ میں مزید خونریزی کا سبب بنے گا۔
ترکی ، سعودی عرب اور دیگر ممالک نےبھی اسرائیلی منصوبوں کی مخالفت کی ہے۔ ترکی نے متنبہ کیا ہے کہ قبضے کو بڑھانے کا ہر قدم عالمی امن اور سلامتی کو شدید دھچکا ہے۔سعودی عرب نے کہا ہے کہ غزہ پر قبضے کی کسی بھی اسرائیلی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔