قابض اسرائیلی فورس ایسے جرائم کواس لئے بڑھاوا نہیں دے رہی کہ اس منافع خوری سے اسے مالی فائدہ ہو، بلکہ اس لئے کہ یہ اس کے مجموعی منصوبے کو تقویت دیتے ہیں۔ جو فلسطینی اس لوٹ مار میں شامل ہو رہے ہیں، وہ یا تو لالچ یا بلیک میلنگ کے سبب کررہے یا پھر محض زندہ رہنے کی مجبوری کے تحت ایسا کر رہے ہیں۔ یہ انتشار، تباہی، اور افراتفری وہی ہے جس کی قابض طاقت نے برسوں سے منصوبہ بندی کی ہے۔
۲؍اگست کو نصیرات کیمپ کے بازار میں مہنگے دام کیخلاف لوگ احتجاج کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این
۱۷؍ جولائی کو میں وسطی غزہ کے النصیرات کیمپ کے ایک بازار میں کھانے کا سستاسامان تلاش کر رہی تھی۔ تبھی میں نے دیکھا چند دکانوں کے سامنے بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ لوگ اس بات پر غصہ میں تھے کہ دکاندار اشیاء ناقابل یقین داموں میں فروخت کررہے تھے، بیشتر کا دعویٰ تھا کہ جو چیزیں فروخت کی جارہی ہیں وہ امدادی قافلوں سے لوٹی گئی ہیں۔ دو ہفتے بعد میں اسی بازار میں پھر گئی اور یہاں ایک بار پھر احتجاج دیکھا۔ مشتعل افرادنعرے لگا رہے تھے: ’’تم چور ہو!‘‘ کچھ تو دکانداروں کو گالیاں بھی دے رہے تھے۔
اس وقت غزہ میں یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ لالچی دکاندار بےرحمی سے قحط کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، وہ امدادی سامان ایسے بیچ رہے ہیں جیسے کوئی نایاب اور قیمتی چیز ہو، حالانکہ یہ مفت تقسیم ہونے والی اشیاء ہیں۔ لالچ اور استحصال اب حد سے بڑھ گیا ہے، اور لوگ اب خود ہی اس کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے غزہ میں قیمتوں میں من مانے اضافے کے خلاف احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ بعض مقامات پر تو لوگ اتنے بپھر گئے کہ انہوں نے دکانیں زبردستی بند کروادیں۔ درحقیقت اشیائے ضروریہ کی قیمتیں ناقابلِ یقین حد تک بڑھ گئی ہیں، جو کسی طور پر’ڈیمانڈ اینڈ سپلائی (رسد و طلب) کے اصولوں ‘ کے مطابق نہیں ہے۔ عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب ان کی قوتِ خرید نہ ہونے کے برابر ہے، تو اشیاء اتنی مہنگی کیوں ہیں۔ میں نے بازار میں اشیاء کی جو قیمتیں دیکھیں وہ ہوش اُڑا دینے والی ہیں : ایک کلو آٹا۴۰؍ شیکل(۱۲؍ڈالر)، ایک کلو چاول۶۰؍ شیکل(۱۸؍ ڈالر)، ایک کلو دال۴۰؍ شیکل (۱۲؍ ڈالر)، ایک کلو چینی۲۵۰؍ شیکل(۷۳؍ ڈالر)، ایک لیٹر خوردنی تیل۲۰۰؍ شیکل(۵۸؍ ڈالر)۔
مارچ میں جب سے اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کی ہے، اقوامِ متحدہ کے ذریعے معمول کے مطابق ہونے والی امداد کی تقسیم — جو کسی بھی جنگ زدہ علاقے میں بلا رکاوٹ جاری رہنی چاہئے — بند ہو چکی ہے۔ عالمی تنقید سے بچنے کے لئے اسرائیل نے نام نہاد انسانی ہمدردی پر مبنی مراکز قائم کیے، جہاں سے امداد تقسیم کی جانی تھی۔ لیکن یہ مراکز ’قتل گاہ‘ ثابت ہوئے ہیں، جو بھوکے پیاسے لوگ امداد لینے آتے ہیں ان پر گولیاں چلائی جاتی ہیں، اور ہزاروں افراد شہید یا زخمی ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، اسرائیلی حکومت نے محدود تعداد میں امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دینا شروع کی، لیکن ان میں سے بڑی مقدار میں سامان غزہ میں داخل ہوتے ہی لوٹ لیا جاتا ہے۔ پھر یہی اشیاء انتہائی مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں۔ ان لوٹی گئی اشیاء کی سپلائی پر جو لوگ قابض ہیں وہ طاقتور تاجر اور دلال ہیں، جنہیں اکثر مقامی بااثر افراد کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے یا وہ اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ ہم آہنگی کے ذریعے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اچانک یا بے ربط نہیں ہو رہا، بلکہ جان بوجھ کر پیدا کی گئی بدنظمی کے ماحول میں انجام پا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کے ڈھہ جانے اور قانونی احتساب کے فقدان کے باعث اب استحصال معمول بن چکا ہے، استثنا نہیں۔
فلسطینیوں پر یہ بات اب بالکل واضح ہو چکی ہے کہ قابض قوت کا مقصد صرف یہ دکھانا نہیں کہ غزہ کمزور ہے، بلکہ یہ ثابت کرنا ہے کہ غزہ ناقابلِ حکمرانی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے صرف سرحدوں کو بند کرنا کافی نہیں، بلکہ غزہ کے عوام کو مستقل افراتفری اور تناؤ کی حالت میں دھکیلنا ضروری ہے۔ بھوک اس حکمتِ عملی کا مرکزی ہتھیار ہے۔ بھوک صرف مارتی نہیں، انسان کی فطرت بھی بدل دیتی ہے۔ جب کوئی فرد بقاء کے لیے درکار بنیادی وسائل سے محروم ہو، اور روزانہ کی تحقیر کا شکار ہو، تو وہ آہستہ آہستہ واضح طور پر سوچنےسمجھنے، صحیح فیصلہ کرنے اور خود کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے — اور پھر وہ ان لوگوں کے خلاف پلٹ سکتا ہے جنہیں وہ — چاہے صحیح ہو یا غلط — اپنے دکھ کا سبب سمجھتا ہے۔
درحقیقت ہر جنگ میں کالابازاری اور جنگی منافع خوری ہوتی ہے، لیکن غزہ کے معاملے میں، قابض اسرائیلی فورس ان جرائم کی نہ صرف اجازت دیتی ہے بلکہ انہیں بڑھاوا دیتی ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ اس منافع خوری سے اسے مالی فائدہ ہو رہا ہے، بلکہ اس لئے کہ یہ اس کے مجموعی منصوبے کو تقویت دیتے ہیں۔ جو فلسطینی اس لوٹ مار میں شامل ہو رہے ہیں، وہ یا تو لالچ یا بلیک میلنگ کے سبب کررہے یا پھر محض زندہ رہنے کی مجبوری کے تحت ایسا کر رہے ہیں۔ یہ آہستہ آہستہ بکھراؤ، تباہی، اور افراتفری وہی ہے جس کی قابض طاقت نے برسوں سے منصوبہ بندی کی ہے۔ قابض اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ کی سڑکوں پر انارکی پھیلے، تاکہ اسرائیلی اور بین الاقوامی میڈیا فوری طور پر فلسطینیوں پر انگلی اٹھا کر کہہ سکے:’’دیکھو، فلسطینی تو خود ہی بکھر رہے ہیں، وہ اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکتے، وہ ایک ریاست کے مستحق نہیں۔ ‘‘
لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی ناکام قوم کی علامت نہیں، بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قابض قوت ایک قوم کو تباہی کے کنارے تک پہنچانے کی اپنی حکمت عملی میں کس حد تک کامیاب ہو چکی ہے۔ یہ عوام نہیں جنہوں نے کنٹرول کھو دیا ہے، بلکہ ان سے زبردستی کنٹرول چھین لیا گیا ہے بھوک کے ذریعے، صحت و صفائی کے بنیادی ڈھانچے کی منظم تباہی کے ذریعے، ریاستی اداروں کی تنسیخ اور مجرم عناصر کو طاقت دے کر۔ لیکن میرا یقین ہے کہ غزہ ٹوٹے گا نہیں۔ لوگ غصے اور مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں، چیخ سکتے ہیں، احتجاج کر سکتے ہیں لیکن ان کے اندر کا اخلاقی شعور اب بھی زندہ ہے۔ یہ اجتماعی صدائے احتجاج آپسی لڑائی نہیں، بلکہ ایک واضح تنبیہ ہے کہ اب غزہ کا معاشرہ غداری برداشت نہیں کرے گا۔ ظالمانہ محاصرے کے دوران جو لوگ بےرحمی سے قیمتیں بڑھاتے ہیں، وہ غدار ہیں اور جب غزہ دوبارہ تعمیر ہوگا، تو وہ انصاف کے اداروں کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔
قابض طاقت اس وقت جس تباہی کا جشن منا رہی ہے، وہ وقتی ہے۔ یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ اس نے فلسطینیوں کو شکست دے دی ہے۔ ہر بحران نئی بیداری کو جنم دیتا ہے۔ ہر غداری ایک نئی مزاحمت کو جنم دیتی ہے۔ فلسطینیوں کی اکثریت اب بھی اپنے مظالم کرنے والوں کا آلہ کار بننے سے انکار کرتی ہے۔ وہ غلامی اور مٹائے جانے کو رد کرتے ہیں۔ وہ اپنے ہم وطنوں کا استحصال یا نقصان کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ فلسطینی قومی یکجہتی اب بھی زندہ ہے۔