مہاراشٹر نونرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس کو خط لکھ کر ریاست میں چھوٹے بچوں کے اغوااورچوری کے واقعات کی جان ان کی توجہ مبذول کروائی ہے۔
EPAPER
Updated: December 14, 2025, 9:14 AM IST | Mumbai
مہاراشٹر نونرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس کو خط لکھ کر ریاست میں چھوٹے بچوں کے اغوااورچوری کے واقعات کی جان ان کی توجہ مبذول کروائی ہے۔
مہاراشٹر نونرمان سینا کے صدر راج ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس کو خط لکھ کر ریاست میں چھوٹے بچوں کے اغوااورچوری کے واقعات کی جان ان کی توجہ مبذول کروائی ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کے ذریعے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ کی حیثیت سے فرنویس سے توقع ظاہر کی ہے کہ وہ اس معاملے پر صرف اجلاس میں بحث تک محدود نہ رہیں بلکہ ٹھوس اور مؤثر اقدامات کریں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک تحریری خط بھی ارسال کیا گیا ہے۔
راج ٹھاکرے نے اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ’’ میں ایک نہایت اہم اور تشویشناک مسئلے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، مہاراشٹر میں بچوں کے اغوا اور گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۲۱ء تا ۲۰۲۴ء بچوں کے اغوا کے واقعات میں تقریباً ۳۰؍فیصد اضافہ درج کیا گیا ہے۔ بین ریاستی گینگ تشکیل پا چکے ہیں جو بچوں کو اغوا کر کے ان سے مشقت کرواتے ہیں اور بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں، جبکہ حکومت کی اس پر واضح کارروائی نظر نہیں آتی۔ راج ٹھاکرے نے کہا کہ مہاراشٹر محض سرکاری بیانات نہیں چاہتا کہ کتنے کیس درج ہوئے اور کتنے بچوں کو بازیاب کروا کر اہل خانہ کے حوالے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ این سی آر بی کے اعداد و شمار دراصل ان والدین کی تعداد بتاتے ہیں جنہوں نے پولیس میں شکایت درج کروائی، مگر یہ سوال باقی رہتا ہے کہ کیا واقعی تمام متاثرہ خاندانوں کی آواز پولیس تک پہنچ پاتی ہے؟ انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ اگر بچوں کو بازیاب بھی کروا لیا جائے تو اس دوران ان کے ذہنوں پر پڑنے والے گہرے صدمے کا ذمہ دار کون ہوگا اور اغوا کرنے والے گینگ کس طرح منظم انداز میں بے رحمی کے ساتھ کام کرتے ہیں؟
ایم این ایس سربراہ نے حکومت سے سوال کیا کہ کیا اس مسئلے پر سختی ضروری نہیں ہے؟ آج سڑکوں، ریلوے اسٹیشنوں اور بس اسٹینڈوں پر بچوں کو بھیک مانگتے دیکھا جاتا ہے اور یہ واضح نہیں ہوتا کہ ان کے ساتھ موجود افراد واقعی ان کے والدین ہیں یا نہیں؟ حکومت اس معاملے کی تحقیقات کیوں نہیں کرتی یا ضرورت پڑنے پر ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کے احکامات کیوں نہیں دیتی؟‘‘راج ٹھاکرے نے مزید کہا کہ ریاست میں چھوٹے بچوں اور بچیوں کے اغوا کے واقعات بڑھ رہے ہیں، مگر نہ حکومت نہ ہی اپوزیشن اس پر اسمبلی میں سنجیدہ بحث کروانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے سرمائی اجلاس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اجلاس کا مقصد صرف ضمنی مطالبات منظور کروانا رہ گیا ہے، کیونکہ اکثر وزرا ایوان میں جواب دینے کیلئے موجود نہیں ہوتے۔ ان کے مطابق اس صورتحال میں بچوں اور لاپتہ لڑکیوں جیسے مسائل پر مؤثر بحث کی توقع غیر حقیقی معلوم ہوتی ہے، پھر بھی یہی مہاراشٹر کی امید ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو اس مسئلے پر تمام ریاستوں سے بات کر کے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دینا چاہئے، تاہم اس وقت مرکزی حکومت دیگر مباحث میں مصروف ہے اور متاثرہ ماؤں کی فریاد سننے کیلئے سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔آخر میں راج ٹھاکرے نے دوبارہ زور دیتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹر وزیر اعلیٰ فرنویس اور وزیر داخلہ سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ نہ صرف اجلاس میں اس مسئلے پر بات کریں بلکہ بچوں کے اغوا کے خلاف ٹھوس اور نظر آنے والی کارروائی بھی کریں۔
وزیر اعلیٰ کی جانب سے راج ٹھاکرے کو جواب
وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے راج ٹھاکرے کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ میں نے ان کا خط نہیں پڑھا ہے لیکن میں نے لاپتہ ہونے والے بچوں خاص کر لڑکیوں کے تعلق سے اعداد وشمار کے ساتھ انہیں جواب دیا ہے۔ ‘‘ فرنویس نے پال گھر میں لڑکیوں کو شادی کے نام پر پھنسانے کی بات کا اعتراف کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ایک گینگ ہے جو آدیواسی بچیوں کے ماں باپ کو پیسے دے کر انہیں لے جاتا ہے لیکن ایسے واقعات میں کارروائی ہوئی ہے اور ۹۰؍ فیصد لڑکیوں کو واپس لایا گیا ہے۔