دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ ، کہا کہ جب تک مرکز عرضی گزار کی اپیل پر فیصلہ نہیں کرتا یہ اسٹے برقرار رہے گا ، انصاف پسند افراد میں اطمینان کی لہر
EPAPER
Updated: July 11, 2025, 5:25 PM IST | Ahmedullah Siddiqui | New Delhi
دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ ، کہا کہ جب تک مرکز عرضی گزار کی اپیل پر فیصلہ نہیں کرتا یہ اسٹے برقرار رہے گا ، انصاف پسند افراد میں اطمینان کی لہر
دہلی ہائی کورٹ نے مسلمانوں کے جذبات کو شدید طور پر ٹھیس پہنچانے والی نفرت انگیز فلم ’ادے پور فائلز‘ کی ریلیز پر روک لگادی ہے ۔عدالت نے اپنے فیصلہ میںکہا کہ جب تک مرکزی حکومت فلم کے مواد کے بارے میںعرضی گزار کی نظر ثانی کی عرضی پر فیصلہ نہیں کرلیتی فلم کی ریلیز پر روک برقرار رہے گی۔یہ حکم جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کی طرف سے دائر کی گئی اس درخواست پر دیا گیا جس میں مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے ادے پور میں درزی کنہیا لال کے قتل پر مبنی فلم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے اور جسٹس انیش دیال کی بنچ نے تفصیلی سماعت کے بعد مرکزی حکومت کو حکم دیا کہ وہ سنیماٹوگراف ایکٹ کی دفعہ ۶؍کے تحت اپنے نظرثانی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فلم کی جانچ کرے۔عدالت نے فیصلہ دیا کہ اس اختیار کا استعمال مرکزی حکومت ازخود یا کسی متاثرہ شخص کی طرف سے دائر درخواست پر کر سکتی ہے۔ عدالت نےکہاکہ عرضی گزار نےاس قانونی راستہ کا سہارا نہیں لیااوریہ کہ عرضی گزاروں کو پہلے مرکزی حکومت سے رجوع کرنا چاہئے تھا لیکن بہر حال یہ ہدایت جاری کی جارہی ہے۔فیصلہ میں کہا گیا کہ ہم عرضی گزار کو دو دن کے اندر مرکزی حکومت سے رجوع کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اگر درخواست گزار مرکزی حکومت سے رجوع کرتے ہیں تو وہ عبوری اقدامات کے لئےدرخواست کرسکتےہیں۔جب درخواست گزار مرکزی حکومت سے نظرثانی کی درخواست کے ساتھ رجوع کرتا ہے توپروڈیوسر کو موقع دینے کے بعد ایک ہفتے کے اندر اس پر غور کیا جائے گا اور فیصلہ کیا جائے گا۔بنچ نے ہدایت دی کہ اس دوران فلم کی ریلیز پر تب تک روک رہے گی۔ اس دوران سینسر بورڈ کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ فلم کے متنازع مناظر کے کچھ حصوں کو ہٹادیا گیاہے۔ بورڈ نے پوری کوشش کی کہ اس نفرت انگیز فلم پر پابندی نہ لگے یا اس کی ریلیز نہ روکی جائے لیکن دہلی ہائی کورٹ نے بالکل واضح انداز میں گیند مرکزی حکومت کے پالے میں ڈال دی اور کہا کہ فیصلہ اسے کرنا ہے۔
عرضی گزارجمعیۃ علماء ہندنے اس فلم کو ملک میں امن وامان اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانےوالا قرار دے کر ملک کی کئی ہائی کورٹس میں اس کے خلاف عرضی دائر کی تھی۔سینئرایڈوکیٹ کپل سبل نے اس معاملے میںدوسرے روز بھی زوردار بحث کی۔ سبل نے بنچ کو بتایا کہ اس فلم کا مقصد ایک خاص کمیونٹی کی تذلیل ہے اوریہ ایک ایسے موضوع پر بنائی گئی جس میں ایک خاص کمیونٹی کو پرتشدد اور فسادات پھیلانے اور پڑوسی ملک میں دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کے ذمہ دار کے طور پر پیش کیا گیا ۔عدالت نے ان کے دلائل سننے کے بعد کہا کہ مرکزی حکومت کودفعہ ۶؍ کے تحت نہ صرف حتمی حکم جاری کرنے بلکہ اس مدت کے لئے فلم کی نمائش معطل کرنے جیسے عبوری اقدامات بھی کرنے کا اختیار دیا گیاہے۔ پروڈیوسر کے وکیل نے دعویٰ کیاکہ پٹیشن میں اٹھائے گئے خدشات سینسر بورڈ کی طرف سے ہدایت کردہ مناظر حذف کرنے سے دور ہو گئے ہیں۔