۲۰۱۵ء میں دبئی میں ہونےوالے انٹراسکول روپ اسکپنگ مقابلے کیلئے منتخب ہونے والی اس طالبہ نے حال ہی میں کنیڈا سے ’’دماغی صحت‘‘ پر اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور کلینکل سائیکالوجی میں ماسٹرس کیلئے وطن لوَٹ آئی ہے۔
EPAPER
Updated: September 10, 2025, 4:53 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
۲۰۱۵ء میں دبئی میں ہونےوالے انٹراسکول روپ اسکپنگ مقابلے کیلئے منتخب ہونے والی اس طالبہ نے حال ہی میں کنیڈا سے ’’دماغی صحت‘‘ پر اعلیٰ تعلیم مکمل کی اور کلینکل سائیکالوجی میں ماسٹرس کیلئے وطن لوَٹ آئی ہے۔
ورلی کی روپ جمپنگ (رسی کودنا) کی ماہر ضیاء مولوی توفیق نے جہاں اپنے کھیل سے متعدد قومی اور بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کئے، وہیں پڑھائی میں بھی عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ صوفایہ کالج سے گریجویشن کےبعد یہ طالبہ، کینڈا سے ۲؍سالہ مینٹل ہیلتھ اینڈ ایڈکشن کاکورس مکمل کر کے ممبئی لوٹی ہے۔ فی الحال وہ دہلی سے ماسٹرس اِن کلینکل سائیکولوجی کر رہی ہے ۔ اس دوران اس نے بلیک بیلٹ اور کراٹے انڈیا آرگنائزیشن سے جج کا کورس بھی کیا ہے۔ واضح رہے کہ نومبر ۲۰۱۵ء میں دبئی میں ہونے والے روپ جمپنگ مقابلہ کیلئے مہاراشٹر سے ضیاء مولوی کے انتخاب پر انقلاب ( جمعہ ۲۳؍ اکتوبر ۲۰۱۵ء) نے تفصیلی خبر شائع کی تھی ۔
۲۰۱۵ء میں ضیاء آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھی۔ اس وقت اس کی عمر ۱۴؍سال تھی۔ اِس چھوٹی سی عمر میں اُس نے دبئی میں منعقدہ ورلڈ انٹر اسکول روپ اسکپنگ چمپئن شپ میں حصہ لیا تھا جہاں اس نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کر کے دوسری پوزیشن اور چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔ واپسی کے بعد بھی ۲؍سال تک اس نے قومی سطح کےمتعدد مقابلوں میں اپنی صلاحیت کا جوہر دکھایا اور بیسیوں گولڈ اور سلور میڈل اپنے نام کئے۔ بعدازیں پڑھائی پر توجہ مرکوز کی اور ایس ایس سی میں ۷۸؍ فیصد مارکس حاصل کئے۔
ضیاء مولوی توفیق کی اکتوبر ۲۰۱۵ء کی تصویر۔
آگے کی پڑھائی کیلئے پیڈر رو ڈکے صوفایہ کالج میں داخلہ اور خصوصی مضمون کے طور پر سائیکولوجی کا انتخاب کیا۔ بارہویں کے بعد سائیکولوجی میں اس کی دلچسپی مزید بڑھتی گئی۔ گریجویشن کے بعد اس نےکینڈا کے سر سینڈفورڈ فلیمنگ کالج آف اپلائیڈ آرٹس اینڈ ٹیکنالوجی سے مینٹل ہیلتھ اینڈ ایڈکشن کا ڈپلومہ کورس کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔ اس کیلئے خطیر رقم درکار تھی مگر اس باحوصلہ طالبہ نے اس بات کی فکر نہیں کی، ایجوکیشن لون لیا، ۲۰۲۳ء میں کینڈا کیلئے روانہ ہوئی اور ۲؍سال میں کورس مکمل کر کے اپریل ۲۰۲۵ء میں ممبئی لوٹ آئی۔ حالانکہ وہ وہیں سے کلینکل سائیکولوجی میں ماسٹرس کرسکتی تھی لیکن اس کا ذہن کچھ اور کہہ رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہاں کی پڑھائی وہاں کے لوگوں کے حالات کی مناسبت سے ہے جبکہ اُسے اپنے وطن عزیز کی خدمت کرنی ہے، اس لئے ضیاء مولوی نے اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی، دہلی میں داخلہ لیا۔
اس نمائندہ کے ایک سوال کے جواب میں ضیاء نے بتایا کہ ’’ ہندوستان میں سائیکولوجی اور مینٹل ہیلتھ کے تعلق سے زیادہ بیداری نہیں ہے، ماہر نفسیات بھی کم ہیں جبکہ میری خواہش ہے کہ اپنے وطن کے لوگوں کی خدمت کروں ۔ نفسیاتی دبائو اور خودکشی کے بڑھتے رجحانات پر قابو پانےکی کوشش میرا مشن ہوگا ۔‘‘ ۲۰۱۵ء میں سرخیوں میں آنے کے بعد سے اب تک کے ۱۰؍ برسوں میں ضیاء مولوی نے وہی سب نہیں کیا جو اوپر بیان کیا گیا ہے بلکہ اس نے کراٹے انڈیا آرگنائزیشن سے کراٹے میں بلیک بیلٹ کا کورس اور کراٹے کاریفری نیز جج بننے کا کورس بھی مکمل کیا ہے۔