سی اے اے ،این پی آر اور این آر سی کے خلاف روشن باغ کے منصور علی پارک میں خواتین کے دھرنے کو۴۰؍ دن گزر چکے ہیں، اس کے باوجود خواتین کے انقلابی تیورسخت ہیں۔یہاں سیاہ قوانین کے خلاف مختلف نعروں، انقلابی جملوں اور ملک سے محبت اور پیار والے اشعار کی تحریرکردہ تختیاں، بینرس،پوسٹرس اور پلے کارڈس آویزا ں ہیں۔
مظاہرہ گاہ میں موجودہ بینرس ایک جھلک ۔ تصویر : انقلاب
الہ آباد : سی اے اے ،این پی آر اور این آر سی کے خلاف روشن باغ کے منصور علی پارک میں خواتین کے دھرنے کو۴۰؍ دن گزر چکے ہیں، اس کے باوجود خواتین کے انقلابی تیورسخت ہیں۔یہاں سیاہ قوانین کے خلاف مختلف نعروں، انقلابی جملوں اور ملک سے محبت اور پیار والے اشعار کی تحریرکردہ تختیاں، بینرس،پوسٹرس اور پلے کارڈس آویزا ں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک میں آزادی کیلئے کی گئی جد و جہد کی خوب منظر کشی کی گئی ہے اور لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون ،این پی آر اور این آر سی سے آزادی کیلئے عوام کو ایک بار پھر سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ ہم نے مظاہرہ گاہ کے ہر گوشے کا جائزہ لے کر وہاں سے جاری کئے گئے پیغام کو قارئین تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔
یہاں ایک پوسٹر یوں تھا کہ ’ہم جنگِ عوامی سے کہرام مچا دیں گے۔‘ اسی طرح ایک پوسٹر پر یہ عبارت تحریر ہے کہ ’اشفاق بسمل کا سندیش ،ہندوستان سب کا دیش ‘۔ایک جگہ تختی لگی ہوئی ہے کہ’ سنویدھان بچائو، دیش بچائو... نو سی اے اے، نو این آر سی‘۔ایک بڑا پوسٹر کچھ اس طرح نمایا ں ہے کہ’آئی لو انڈیا ...اینڈ آئی ریجیکٹ این آر سی اور سی اے اے‘۔ایک پوسٹر پر لکھا ہے کہ ’ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے‘۔ اس پوسٹر میں جانبازخواتین کی تصویر پیش ہے ۔گجا نن مادھو مکتی بودھ کے اقوال کو پوسٹر میں یوں پیش کیا گیا ہے کہ’ ’آندھی کے جھولے پر جھولو،آگ بگولہ بن کر پھولو، قربانی کرنے کو جھومو،لال سویرے کا منھ چومو،اے انسانو! اوس نہ چاٹو، اپنے ہاتھوں پربت کا ٹو،پتھ کی ندیاں کھینچ نکالو،جیون پی کر پیاس بجھا لو،روٹی تم کو رام نہ دے گا،وید تمہارا کام نہ دے گا، جو روٹی کا یدھ کرے گا، وہ روٹی کا آپ ورے گا۔‘‘
اسی طرح ساوتری بائی پھولے سے منسوب چند جملے بھی لکھے ہوئے ملے ’’اچھوتوں کو گیان ارجت کرنا چاہئے اور آزادی پراپت کرنی چاہئے ۔وہ بھی باقی لوگوں کی طرح ہی منشیہ ہیں اور انھیں بھی گریما مے منشیہ کی طرح جینا چاہئے۔اس کیلئے انھیں شکشت ہونا چاہئے ۔برہمن ناراض ہیں کیونکہ ان کو لگتا ہے اس سے انھیں پریشانی ہو گی، اسلئے وہ ہمارا وِرودھ کرتے ہیں۔‘‘ پارک کے اطراف کے درو دیوار پر ایک جگہ لکھا ہے کہ’جامعہ تیرے خون سے انقلاب آئے گا‘۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے ایسے نعرے تحریر تھے جو احتجاج اور انقلا ب کی تصویر تھے۔