روس نے افغانستان پر چڑھائی نہ کی ہوتی تو افغانستان کی وہ حالت نہ ہوتی جو آج ہے، اور نہ سوویت یونین تباہ ہوتا، ماضی کو بھلا کر روس نے طالبان سے ہاتھ ملا لیا
EPAPER
Updated: July 31, 2025, 1:10 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
روس نے افغانستان پر چڑھائی نہ کی ہوتی تو افغانستان کی وہ حالت نہ ہوتی جو آج ہے، اور نہ سوویت یونین تباہ ہوتا، ماضی کو بھلا کر روس نے طالبان سے ہاتھ ملا لیا
۷۰؍ کی دہائی میں جب دنیادو خیموں میں تقسیم تھی ایک امریکہ اور اس کے حامیوںکا تو دوسرا روس اور اس کے دوست ممالک کا۔ یورپی ممالک پر امریکہ کا سایہ تھا تو روس نے اپنے آس پاس کی چھوٹی بڑی ریاستوں کو اپنے اندر شامل کرکے خود ’سوویت یونین ‘ کا نام دیدیا تھا۔ اسی زمانے میں روس کا خیال آیا کہ ’ ایک ریاست اور سہی‘ اور اس نے افغانستان پر ڈورے ڈالنے شروع کئے ۔ اس زمانے میں افغانستان میں بھی کمیونسٹ تحریک موجو د تھی۔ بہت کوششوں کے بعد بھی جب بات نہیں بنی تو روس نے باقاعدہ افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ یاد رہے کہ روس اس وقت فوجی اعتبار سے سب سے طاقتور ملک سمجھا جاتا تھا اور اس کی نظر میں یہ ’چند گھنٹوں کا کھیل‘ تھا لیکن روسی فوجی افغانستان میں داخل ہوئیں تو انہیں وہاں سے نکلنے میں ۱۰؍ سال لگ گئے۔ وہ بھی شکست کھا کر اور سمجھوتہ کرنے کے بعد ۔
روسی فوج کے جانے کے بعد چند سال افغانستان میں خانہ جنگی رہی۔ اسی دوران طالبان کا ظہور ہوا اور انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور اسلامی حکومت قائم کرلی۔ یہ بات بہت مشہور ہے کہ روس کے خلا ف امریکہ نے افغان مجاہدین کی مدد کی تھی اسے توقع تھی کہ روس کے جانے کے بعد افغانستان میںاس کا عمل دخل رہے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ لہٰذا اس بار امریکہ نے دہشت گردی کا بہانہ بنا کر افغانستان پر بمباری شروع کردی۔ ۲؍ ماہ کے اندر طالبان کی حکومت ختم کرکے اپنی ایک کٹھ پتلی حکومت قائم بھی کرلی۔ دنیا سے کچھ عرصے کیلئے طالبان کا تذکرہ ختم ہونے لگا لیکن بہت کم یہ خبریں باہر آ رہی تھیں کہ افغانستان میں اب بھی جنگ جاری ہے۔ امریکہ نے اپنی حکومت تو قائم کرلی لیکن زمین پر اترنے کے بعد امریکہ اور نیٹو کے فوجی افغانستان کی بھو ل بھلیا میں پھنس کر رہ گئے۔ حالت یہ ہوئی کہ انہیں امریکہ سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ تک نظر نہیں آرہا تھا۔ بالآخر ۲۰۱۸ء میں جب ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے تو انہوں نے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے کہہ کر طالبان سے مذکرات شروع کروائے اور ۲۰۲۰ء میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ ہو گیا ۔ ۲۰۲۰ء کے بعد طالبان نے امریکی فوجیوںپر حملے بند کر دیئے اور امریکیوں نے اپنے بستے باندھنے شروع کر دیئے۔ رہ گئی افغان حکومت کی فوج تو اسے طالبان نے صرف ۵۰؍ دنوں کے اندر پسپا کر دیا اور ۲۰؍ سال بعد دوبارہ افغانستان کے اقتدار کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔
اب دنیا کے پاس اس بات کا کوئی جواب یا جواز نہیں تھا کہ اسلحوں اور ٹیکنالوجی سے لیس ۴۳؍ ممالک کی فوجیں بےیار ومدد گار بلکہ بے سروسامان طالبان کو شکست کیوں نہیں دے سکیں۔ امریکہ اربوں ڈالر افغانستان میں بہا کر لوٹ گیا۔ امریکہ کے بٹھائے ہوئے کٹھ پتلی صدر اشرف غنی ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر فرار ہو گئے۔ طالبان کی حکومت تو قائم ہو گئی لیکن اقوام متحدہ نےاسے تسلیم نہیں کیا۔ انہیں افغان حکومت کا وہ فنڈ بھی نہیں دیا گیا جو اقوام متحدہ کے پاس جمع تھا۔ البتہ افغانستان کے پڑوسی ممالک جیسے پاکستان، چین اور ایران نے اس کے ساتھ ہمدردی ضرور دکھائی۔ خاص کر چین نے افغانستان سے کاروبار شروع کیا۔ روس جس کی وجہ سے افغانستان کی تباہی کی شروعات ہوئی تھی ( اور افغانستان کی وجہ سے جو خود تباہ ہو گیا )اس نے اپنا رویہ پوری طرح تبدیل کر لیا اور طالبان حکومت سے دوستی بڑھانی شروع کی۔ حتیٰ کہ اس نے باقاعدہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرلیا ہے اور کابل میں اپنا سفارتخانہ کھول دیا۔ طالبان حکومت نے بھی ماسکو میں اپنا سفارتخانہ شروع کیا۔ اس طرح طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔
یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی وجہ سے تباہ ہوئے تھے آج ایک نئے سفارتی سفر کی شروعات کرنے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ روس کو ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ شاید اس لئے کہ اس وقت یورپ کی جانب سے پہلے یوکرین کے ذریعے روس پر پھر اسرائیل کے ذریعے ایران پر تھوپی گئی جنگ کے سبب خطے کا استحکام خطر ے میں ہے۔ اس لئے روس اپنے بغل میں کوئی ملک ایسا نہیں چھوڑنا چاہتا جو اس کیلئے کل کسی طرح استعمال کیا جا سکتا ہو۔ نیز چین اور پاکستان کے ساتھ کاروبار کیلئے زمینی راستہ صرف افغانستان ہو کر ہی جاتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی افغانستان حکومت کو تسلیم کرنا روس کیلئے ضروری تھا۔ تیسری وجہ جو نظر نہیں آ رہی ہے مگر موجود ہے وہ یہ کہ جنگ کے بڑھتے خطرات کے لحاظ سے افغانستان کو اپنے ساتھ رکھنا روس کو ہر حال میں ضروری معلوم ہو رہا ہے۔