تیز رفتار’ریسنگ بوٹ‘ کے کنارے پر کھڑے ہو کر رقص کرنے والا انڈونیشیائی لڑکا اس وقت دنیا بھر میں مشہور ہوگیا ہے۔ اس ۱۱؍سالہ لڑکے کا نام ریّان ارخان ڈیکا ہے ۔ جو دنیا بھر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ’ٹرینڈنگ‘ میں ہے۔
EPAPER
Updated: July 15, 2025, 3:51 PM IST | Jakarta
تیز رفتار’ریسنگ بوٹ‘ کے کنارے پر کھڑے ہو کر رقص کرنے والا انڈونیشیائی لڑکا اس وقت دنیا بھر میں مشہور ہوگیا ہے۔ اس ۱۱؍سالہ لڑکے کا نام ریّان ارخان ڈیکا ہے ۔ جو دنیا بھر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ’ٹرینڈنگ‘ میں ہے۔
تیز رفتار’ریسنگ بوٹ‘ کے کنارے پر کھڑے ہو کر رقص کرنے والا انڈونیشیائی لڑکا اس وقت دنیا بھر میں مشہور ہوگیا ہے۔ اس ۱۱؍سالہ لڑکے کا نام ریّان ارخان ڈیکا ہے ۔ جو دنیا بھر کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ’ٹرینڈنگ‘ میں ہے۔ سر پر اونچی سی منفرد ٹوپی ، بدن پر کالا روایتی لباس اور آنکھوں پر بڑا سا چشمہ لگائے ریّان کی ویڈیوز دنیا بھر میں پسند کی جارہی ہیں۔ عام صارفین کے ساتھ ساتھ نامورافراد بھی اس کے رقص کے دیوانے ہوگئے ہیں۔
ریّان ڈِیکا نے ’اَورا فارمنگ(Aura Farming)‘ کے ایک عالمی ٹرینڈ کو جنم دیا ہے، جسے مشہور کھلاڑیوں اور دنیا بھر کے ہزاروں افراد نے دہرایا ہے۔’اَورا فارمنگ‘ ایک انٹرنیٹ اصطلاح ہے جو۲۰۲۴ء میں مشہور ہو ئی تھی، اور عام طور پر اسے اینیمے کرداروں اور مشہور شخصیات کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے مسلسل دلکش نظر آنا تاکہ اپنے ’’اورا (اثر یا پرکشش شخصیت)‘‘ کو بڑھایا جا سکے۔
Ein 11-jähriger Junge aus Indonesien hat das Internet im Sturm erobert, und sein Tanz auf dem Bug eines Rennbootes wurde zu einer viralen Sensation. Er heißt Ryan Arkan Dika, nimmt an Ruderwettbewerben teil und seine Rolle wird als „Aura Farming” („Aura-Ernte”) bezeichnet. pic.twitter.com/AzEVyoblTW
— Arbeiterclub (@Arbeiterclub) July 14, 2025
ریان ارحان ڈیکا،کا تعلق انڈونیشیا کے ریاؤ صوبے سےہے، اسے سوشل میڈیا پر ’دی الٹی میٹ اورا فارمر (انتہائی متاثر کن شخصیت کا حامل)‘‘ قرار دیا گیا ہے، کیونکہ وہ ایک پتلی سی ریسنگ کشتی کے اگلے سرے پر پراعتماد انداز میں مخصوص حرکات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے ویڈیوز کو دنیا بھر میں لاکھوں افراد نے دیکھا ۔یہ لڑکا، جسے عرف عام میں ’ڈیکا‘ کہا جاتا ہے، ایک مقامی تقریب میں حصہ لے رہا تھا جسے ’پاچو جالور‘کہا جاتا ہے، جس کا معنی ’بوٹ ریس‘ ہے۔ یہ ایک روایت ہے جو۱۷؍ویں صدی کے اوائل سے چلی آ رہی ہے، اور اب ہر سال اگست میں انڈونیشیا کے یوم آزادی کی یاد میں منائی جاتی ہے۔
انڈونیشیا کے وزیر ثقافت فادلی زون نے ایک بیان میں کہا کہ پاچو جالور۲۰۱۵ء سے انڈونیشیا کے غیر مادی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے، یہ بیان انہوں نے بدھ کو جکارتا میں اپنے دفتر میں ڈیکا کی میزبانی کے بعد دیا۔ یہ آبی کھیل ریاؤ کے کوانتان سنگنگی علاقے میں شروع ہوا تھا، جب کشتی ہی وہاں کے لوگوں کیلئے نقل و حمل کا بنیادی ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ فادلی نے کہا،’’یہ (پاچو جالور) ہمیشہ یہاں کی زندگی کا حصہ رہا ہے، خاص طور پر اسلامی تہواروں اور یوم آزادی کی تقریبات کے موقع پر۔ویڈیو کے زبردست اثر نے اسے ریاؤ کی حکومت کی خصوصی توجہ کا مرکز بنا دیا، جہاں منگل کوگورنر نے ڈیکا کو صوبے کا سیاحتی سفیر مقرر کیا اور اس کی تعلیم کیلئے ۲۰؍ لاکھ روپیہ (تقریباً ۱۲۰۰؍ امریکی ڈالر) کا وظیفہ دیا۔گورنر عبد الواحد نے کہا’’آج تقریباً ہر شخص نے ریاؤ کی متحرک اور بھرپور ثقافت، خاص طور پر پاچو جالور کو تسلیم کیا۔ اسی لئے میں نے ڈیکا کی ستائش کا فیصلہ کیا ہے۔