Inquilab Logo

ایوت محل کے ساجد اپنی بیوی اور بچوں کی پاکستان سے واپسی کیلئے کوشاں

Updated: June 15, 2022, 9:58 AM IST | yakut mahal

زینب کوروناکی لہر سے قبل والدہ کی طبیعت خراب ہونے پر عیادت کیلئے کراچی گئی تھیں مگر اب وہیں پھنس کر رہ گئی ہیں

Zainab and her two daughters Ayesha and Amna
زینب اور ان کی دوبیٹیاں عائشہ اور آمنہ

کورونا کے دور کے بعد زندگی پٹری پر لوٹنے لگی ہے لیکن ہر ایک کی زندگی پٹری پر لوٹ گئی ہو،ایسا نہیں ہے۔ایوت محل سے تعلق رکھنے والی زینب سیانی تین سال پہلے پاکستان  کے شہر کراچی اپنے مائیکے گئی تھیں۔کورونا کے سبب نافذ کردہ لاک ڈاؤن کے نتیجے میںوہ وہیںرہ گئیں۔  تب سے  وہ اب تک پاکستان میںہی ہیں اور ان کے آنے کا کوئی بندوبست نہیں ہوسکا ہے۔وہ اپنی دوبیٹیوں عائشہ اور آمنہ کے ساتھ کراچی میں ہی پھنسی ہوئی ہیں۔اب کورونا کی تقریباًتمام پابندیاںہٹ جانے کے سبب ان کے شوہرساجدسیانی اپنی بیوی اور دو بچیوں کو پاکستان سے واپس لانے کی لگاتار کوشش کررہے ہیں اورانہوں نے تمام کاغذی کارروائی مکمل کرلی ہے۔ایوت محل کے ساجد سیانی کا کراچی کی زینب سیانی سےنکاح ۱۹؍ اکتوبر ۲۰۱۴ء کو ہوا تھا۔ دونوں کے درمیان انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ ہوا تھا ۔ نکاح کے بعد وہ ایک مہینہ کے ویزا پر ہندوستان آئی اور بعدمیں۶؍ ماہ کی مدت بڑھالی ۔ پھر انہوں نے طویل مدتی ویزا کی درخواست کی۔ اس کے بعد دونوں کی ازدواجی ز ندگی چلتی رہی اورایسے ہی۴؍ سال ہوگئے۔کراچی میںوالدہ کی طبیعت خراب ہونے کی اطلاع ملنے پرزینت نے یکم ستمبر۲۰۱۸ء کو گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ ساجدانہیںکراچی چھوڑ کر واپس آگئے۔ اس دوران زینب حاملہ تھیںاس لئے انہوں نے پاکستان میںہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا ۔ پاکستان میں ہی ان کی دوسری بیٹی کی پیدائش ہوئی ۔بعد ازاں کورونا شروع ہونے پرلاک ڈاؤن  لگ گیا ۔ ان کی پہلی بیٹی عائشہ کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی تھی ۔لاک ڈاؤن لگنے کے بعد سے وہ وہیں پر پھنسی ہوئی  ہیں۔ساجدنے  پاکستان میں ہندوستانی  سفارتخانہ سے رابطہ کیا ہے اورضروری کاغذات بھی سفارتخانے کے حوالے کردئیے ہیں۔ اس دوران حکومت سے بھی ساجد نے  اپنی بیوی اور بچیوں کو واپس لانے میں تعاون کی  اپیل کی ہے۔ساجد ا ور زینبت کی دوبیٹیوں میںسے ایک کی عمر ۶؍ جبکہ دوسری کی ۳؍ سال ہے۔ساجد نے  اپنی چھوٹی بیٹی کا ویزا نکالنے کیلئےعدالت کی معرفت حلف نامہ ،الیکٹریکل بل  اوردیگر ضرورت دستاویزات زینب کو ای میل کر دئیے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK