Inquilab Logo

نجی موٹرگاڑی والو ں سے اسکول بس والے پریشان!

Updated: July 17, 2023, 10:55 AM IST | Saadat Khan | Mumbai

نجی کار ، ٹیکسی اور وین سے بچوںکو اسکول چھوڑنے سے اسکول بس والوں کا مالی نقصان،بس اسوسی ایشن کا ۷؍دنوںمیں ان موٹر گاڑیوں پر کارروائی نہ کرنے پر عدالت کادرواز ہ کھٹکھٹانے کااعلان

Displeasure is being expressed for taking children to school by private vehicle.
پرائیویٹ گاڑی سے بچوں کو اسکول لے جانےپر ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

نجی کار، کالی پیلی ٹیکسی، وین اور آٹورکشا  و غیرہ سے  طلبہ کو اسکول لے جانے والوں کیخلاف بس اسوسی ایشن کے متعدد مرتبہ ٹریفک کمشنر، جوائنٹ پولیس کمشنر اور وزیراعلیٰ سے شکایت کے باوجود بچوںکی زندگی سے کھلواڑ کا سلسلہ  جاری ہے۔ اب تو گھریلو عورتوں نے بھی اپنی موٹرکارمیں اسکولی بچوںکو اسکول چھوڑنے اور گھرپہنچانےکا کاروبار شروع کر دیا ہے۔ ایسے میں اسکول بس اسوسی ایشن کی،  جوساری قانونی کارروائی پوری کرنے کےعلاوہ  بچوںکے تحفظ کا پورا خیال رکھتے ہوئے اپنی خدمات پیش کر رہا ہے، اس کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ اس لئے بس اسوسی ایشن نے فیصلہ کیاہےکہ ۷؍دنوں میں اگر ان غیر قانونی موٹر گاڑیوں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور اسکول بس سروس بند کرکے مذکو رہ موٹر گاڑیوں کی طرح وہ بھی  غیر قانونی کاروبار کریں گے۔
  اسکول بس اسوسی ایشن کے صدر انل گرگ نےبتایاکہ ’’بچوںکے تحفظ سے کھلا کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔اسکول بس کے کرایہ سے ۲۰۰؍سے ۴۰۰؍  روپے ماہانہ کم فیس لے کر نجی موٹر گاڑی مثلاً وین، کالی پیلی ٹیکسی ، ایکو اور آٹو رکشا والے غیر قانونی طورپر بچوںکو اسکول اور اسکول سے گھر پہنچانے کا کاروبار کر رہےہیں۔ان کی موٹر گاڑیوں  میں بچوںکے تحفظ کا کوئی انتظام اورنہ ہی کوئی معاون ہوتاہے۔ ان موٹرگاڑیوںسے آر ٹی او نے بچوںکو  اسکول یا گھر چھوڑ نے کی اجازت نہیں دی ہے ۔ اس کے باوجود دھڑلے سے مذکورہ قسم کی غیر قانونی موٹر گاڑیاں بچوںکو اسکول اور اسکول سے گھر چھوڑنے کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان کے خلاف متعدد مرتبہ ٹریفک پولیس کمشنر، آرٹی او، جوائنٹ پولیس کمشنر اور وزیراعلیٰ سے شکایت کی جاچکی ہے لیکن ابھی تک ان کے خلاف کسی طر ح کی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔‘‘
  انہوں نے یہ بھی بتایاکہ’’ مذکورہ قسم کی موٹر گاڑیاں آرٹی او کے قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی کررہی ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاجارہاہے جبکہ اسکول بس والے ذرا سی غلطی مثلاً اسکول بس سگنل کے قریب یاٹریفک ہونے سے سڑک کے کنارے پارک نہیں کر  پاتے  ہیں تو فوراً چالان کا ٹ دیاجاتاہے ۔ ہم پر معمولی غلطیوں کی سزا کے عوض بھاری جرمانہ عائد کیاجاتاہے لیکن نجی موٹر گاڑی والوں کے خلاف کسی طرح کی کارروائی نہیں کی جاتی ۔نجی موٹر گاڑی والے حکومت کو کوئی رینیو نہیں دیتےہیں نہ ان کی موٹر گاڑیوںمیں بچوںکی سیفٹی کاکوئی انتظام ہے جبکہ اسکول بس سے حکومت کو رینیو ملتا ہے۔  اس کے باوجود ان کے خلاف کاررو ائی کیو ں نہیں کی جارہی ہے ۔ اب تو گھریلو خواتین نے بھی یہ کاروبار شرو ع کردیاہے۔ اپنی موٹر گاڑیوں میں اسکولی بچوں کو  اسکول اور گھر ڈراپ کرنے کا کاروبار گھریلو خواتین بھی کررہی ہیں۔اگر اسکول بس والوںکا کاروبار اسی طرح چھینا گیاتو مجبورا ً اسکول بس والوںکو بھی کوئی راستہ نکالنا ہوگا۔‘‘
 انل گرگ کےمطابق ‘‘ سارا قانون اسکول بس والوں کیلئے ہے۔ ایک اسکول بس چلانے کیلئے آرٹی او کے ۲۳؍قوانین پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ہم ان سبھی قانون پر باقاعدہ عمل کرتے ہیں۔ ان ضابطوں پر عمل کرنےکے علاوہ ۲۵؍ لاکھ روپے کی بس خرید کر ،بچو ںکی پوری سیفٹی کا خیال رکھتےہوئے اپنی خدمات پیش کرتےہیں ۔ لیکن نجی موٹر گاڑی والے کسی طرح کے قانون پر عمل کئے بغیر بچوںکی زندگی سے کھلواڑ کرتے ہوئے ہمارا کاروبار خرا ب کررہےہیںجبکہ اس طرح کے موٹر گاڑی والے ۲؍قسم کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ایک تو مسافروں کا کاروبار ہورہاہے ۔ دو سرے اسکولی بچوں کو اسکول اورگھر چھوڑ کر اضافی کمائی کررہےہیں۔  ان کی بےضابطگی کسی کو دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔سب کی آنکھوں پر پٹی  بندھی ہے۔‘‘
 انہوں نےٹریفک ڈپارٹمنٹ  والوں پر الزام لگاتے ہوئے کہاکہ ’ ممبئی میں کم وبیش ۱۵؍ ہزار اسکول وین چل رہی ہیں ۔ان  میں سے تقریباً ۵؍ہزار وین ڈپارٹمنٹ والوںکی ہیں ۔ اس لئے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی ہے۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے، ٹریفک کمشنر، جوائنٹ پولیس کمشنر اور آرٹی او سے ان غیر قانونی موٹرگاڑی والوں کے خلاف متعدد مرتبہ شکایتیں کی جاچکی ہیں لیکن ان شکایتوںکاکوئی جواب ملا نہ ہی کوئی کارروائی کی گئی۔اب ہم  نے فیصلہ کیا ہے کہ۷؍دنوں میں اگر کوئی ایکشن نہیں لیاگیاتو ہم عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ عدالت سے تمام قانونی اسکول بسو ںکو بند کرنے کی اجازت لے کر ہم بھی مذکورہ موٹر گاڑیوں کی طرح بغیر کسی ضابطے پر عمل کرتے ہوئے اپنی خدمات پیش کریں  گے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK