Inquilab Logo

دوست کی غربت دیکھ کر ملائم سنگھ جذباتی ہوگئے تھےاور پھر اسے اپنی کابینہ میں شامل کرلیاتھا

Updated: October 12, 2022, 9:28 AM IST | Lucknow

سماج وادی پارٹی کے سرپرست ملائم سنگھ یادو کے انتقال کی وجہ سے سیفئی، اٹاوہ، مین پوری اور فیروز آباد کے لوگ سوگوار ہیں۔ اٹاوہ اگر ملائم سنگھ کا آبائی ضلع تھا تو فیروز آباد کو وہ اپنی ’کرم بھومی‘ قرار دیتے تھے۔

Vishram Singh Yadav with Mulayam Singh Yadav
ملائم سنگھ یادو کے ساتھ وشرام سنگھ یادو

سماج وادی پارٹی کے سرپرست ملائم سنگھ یادو کے انتقال کی وجہ سے سیفئی، اٹاوہ، مین پوری اور فیروز آباد کے لوگ سوگوار  ہیں۔ اٹاوہ اگر ملائم سنگھ کا آبائی ضلع تھا تو فیروز آباد کو وہ اپنی ’کرم بھومی‘ قرار دیتے تھے۔ ان دونوں مقامات پر ایسے کئی چہرے ہیں جنہوں نے ملائم کے ساتھ تعلیم حاصل کی، ان کے ساتھ زندگی کے ماہ و سال گزارے اور جب انہوں نے سیاست میں قدم رکھاتو انہوں نے نیتا جی کے ساتھ وہاں بھی کام کیا۔
 ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو کبھی بھولتے نہیں تھے اور ان کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے تھے۔ ایک بار ان کا ایک دوست ان سے ملاقات کیلئے آیا تو انہوں نے دیکھا کہ وہ سرد میں چپل پہنے ہوئے آیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ جذباتی ہوگئے اور انہوں نےاسے وزیر مملکت بنا دیا ۔
 ملائم سنگھ نے گریجویشن ’کے کے کالج‘ اٹاوہ سے کیا۔ انہوں نے سیاسیات میں بی اے اور ایم اے کیا۔ کچھ دن تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد۱۹۶۷ء میں وہ یوپی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کے ایک اسکولی ساتھی وشرام سنگھ ہیں جو بعد میں ان کے سیاسی ساتھی بھی بنے، انہوں نے کچھ واقعات بیان کئے ہیں۔ ان واقعات سے ملائم سنگھ کی کی ذہانت، ان کی سادگی اور ان کی  زمین سے وابستگی کا پتہ چلتا ہے ۔
پہلا واقعہ
 دوست کو دیکھ کر جذباتی ہوگئے
 ملائم سنگھ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والے ان کے ایک ساتھی وشرام سنگھ یادو بتاتے ہیں کہ ’’ہم اور نیتا جی ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ جس وقت ہم گریجویشن کر رہے تھے،انہی دنوں نیتا جی سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے تھے۔کچھ دنوںتک ہم نے ’کرہل‘ میں ایک ساتھ ملازمت بھی کی۔ اس کے بعد نیتا جی سرگرم سیاست میں آگئے اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ نیتا جی آگے بڑھتے رہے لیکن وہ اپنے پرانے ساتھیوں کو کبھی نہیں بھولے۔‘‘ انہوںنے بتایا کہ ’’ایک بار سخت  میں سخت سردی کے موسم میں ملائم سنگھ سے ملنے لکھنؤ پہنچا، اُس وقت میں نے چپل پہن رکھی تھی۔  وہ  مجھے دیکھ کرجذباتی ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ وشرام اتنی سخت سردی میں تم چپل  پہن کر آئے ہو۔ میں نے کہا کہ تم سے ملنا تھا تو چلا آیا۔ اُس وقت وہ بھی ہنسی میں ٹال گئے لیکن دل میں کچھ ٹھان لیاتھا۔ کچھ دنوں بعد ہی انہوں نے مجھے اپنی کابینہ میں شامل کرلیا ۔‘‘
دوسرا واقعہ
  صرف نوٹس سنتے اور جواب یاد کرلیتے تھے
 وشرام سنگھ کہتے ہیں کہ ’’ملائم سنگھ یادو نے اٹاوہ سے گریجویشن کیا ہے۔ وہ پڑھنے لکھنے میں بہت اچھے تھے۔ سماجی کاموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے وہ کبھی اپنے نوٹ نہیں بنا سکے لیکن، ان کی یادداشت بہت تیز تھی۔ میں پڑھائی کے دوران تمام نوٹ تیار کرتا تھا۔ امتحان کے دوران نیتا جی کہتے کہ تم اونچی آواز میں پڑھو، میں سن رہا ہوں.... اور وہ صرف سن کر  انہیں یاد کرلیتے تھے اور اسی تیاری کی بنیاد پر امتحان بھی دیتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے مارکس بھی کم و بیش ہمارے برابر ہی ہوتے تھے۔ یہ ان کی یادداشت ہی کا کمال تھا کہ وہ اگر کسی سے ایک بار مل لیتے تو اسے بھولتے نہیں تھے، اکثر لوگوں کو ان کے نام سے پکارتے تھے۔
تیسرا واقعہ
 ملائم سنگھ آم کھانے کے بہت شوقین تھے
 وشرام سنگھ یادو کہتے ہیں کہ ’’ملائم سنگھ یادو کو شروع  ہی سے آم کھانے کا بہت شوق تھا۔ انہیں آم بہت پسند تھے۔ جب بھی ہم اٹاوہ، فیروز آباد یا کسی اور جگہ کھانے کیلئے رکتے تھے، نیتا جی کیلئے بالٹیوں میں آم رکھے جاتے تھے۔ وہ ہمیشہ سادہ کھانا کھانے کو ترجیح دیتے تھے۔ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بھی ان کیلئے صرف دال، چاول، سبزی اور روٹی خصوصی طور پر بنائی جاتی تھی۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ ہمیشہ اپنے دوستوں کے ساتھ پرانی یادیں بیان کرتے تھے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK