ملک کے مشہور وکلاء، متعدد بار کونسل اور اپوزیشن لیڈران نے شدید اعتراض کیا، کہا کہ ’’عدلیہ پر اعتماد برقرار رکھنے کیلئے ججوں کو ہر طرح سے ضابطہ اخلاق کا پابند ہونا چاہئے۔‘‘
EPAPER
Updated: September 13, 2024, 11:12 AM IST | Agency | New Delhi
ملک کے مشہور وکلاء، متعدد بار کونسل اور اپوزیشن لیڈران نے شدید اعتراض کیا، کہا کہ ’’عدلیہ پر اعتماد برقرار رکھنے کیلئے ججوں کو ہر طرح سے ضابطہ اخلاق کا پابند ہونا چاہئے۔‘‘
گزشتہ شب ایک ویڈیو منظر عام پر آیا ہے، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈ کی رہائش گاہ پر منعقدہ گنپتی پوجا میں شرکت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ویڈیو میں چیف جسٹس اور ان کی اہلیہ وزیر اعظم کا استقبال کرتے ہوئے اور بعد میں ایک ساتھ پوجا کرتے ہوئے نظر آ تے ہیں۔وزیر اعظم مودی نے اس ویڈیو کو خود سوشل میڈیا پر شیئر کیا اور مراٹھی میں لکھاکہ ’’چیف جسٹس ڈی وائی چندرچڈ کی رہائش گاہ پر گنیش پوجا میں شامل ہوا۔ بھگوان گنیش سب کو امن، خوشحالی اور صحت مندی عطا کریں۔‘‘ یہ ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد کئی سنگین سوال اٹھ رہے ہیں اور ساتھ ہی مودی پر شدیدتنقیدیں بھی ہو رہی ہیں۔ ملک کی وکلاء برادری سے لے کر اپوزیشن لیڈران اور سماجی کارکنان تک سبھی نے اس ملاقات کو کئی معنی پہنائے ہیں لیکن یہ مطالبہ بھی کیا کہ ججوں کو ہر صورت میں ضابطہ اخلاق کا پابند ہونا چاہئے۔ اس طرح کی ملاقات عدلیہ کی شبیہ کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔
ملک کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے اس ویڈیو پرتبصرہ کرتےہوئےاس معاملے میں کئی سوالات اٹھائے۔ انہوں نے ٹویٹ کیا کہ ججوں کےلئے ضابطہ اخلاق: ایک جج کو اپنے عہدے کے وقار کے مطابق ایک حد تک لاتعلقی کی مشق کرنی چا ہئے۔ اس کی جانب سے ایسا کوئی کام یاکسی کوتاہی کا ارتکاب نہیں ہونا چا ہئے جو اس کے اعلیٰ عہدے اور اس عہدے کے عوامی احترام سے متصادم ہو۔انہوں نے مزید کہاکہ میں اس بات سے حیران ہوں کہ سی جے آئی چندرچڈ نے مودی کو ذاتی ملاقات کے لئے اپنی رہائش گاہ آنے کی اجازت کیسے دی ؟ اس سے پورے ملک کی عدلیہ کے لئے بہت برا اشارہ ملتا ہے کیونکہ عدلیہ کا کام ہی انتظامیہ سے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ حکومت آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرے۔ اس لئے ہمارے آئین کے معماروں نےہمیشہ ہی انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان حدِ فاصل کھینچ دی تھی جسے آج تک برقرار رکھا گیا لیکن اب اسے پار کرلیا گیا ہے جو کافی تشویشناک ہے۔اس ملاقات پر معروف وکیل اندرا جے سنگھ نے بھی تبصرہ کیا۔ انہوں نے لکھاکہ چیف جسٹس نے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کی علیحدگی یعنی’ سیپریشن آف پاورس‘ کے نظریہ سے سمجھوتہ کیا ہے جس کی وجہ سے چیف جسٹس پر سے اب ہمارا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ سپریم کورٹ بار اسوسی ایشن کو عوامی سطح پر اس کی مذمت کرنی چا ہئےکیونکہ اس سے چیف جسٹس کی آزادانہ کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔
اس معاملے پر شیو سینا (ادھو) کے لیڈر اور ترجمان سنجے راؤت نے تو انتہائی شدید ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’گنپتی کا تہوار چل رہا ہے، لوگ ایک دوسرے کے گھر جا رہے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ وزیر اعظم اب تک کتنے گھروں کا دورہ کر چکے ہیں لیکن وزیر اعظم چیف جسٹس کے گھر گئے اور انہوں نے آرتی کی۔ اگر آئین کا محافظ ایسے ہی سیاستدانوں سے ملاقات کرتا ہے تو اس سے لوگوں کے ذہنوں میں شک پیدا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ہمارا مہاراشٹر میں شیو سینا کے ۲؍ گروپس کا معاملہ سی جے آئی چندرچڈ کے سامنے ہی زیر سماعت ہے اس لئے اب ہمیں شبہ ہو رہا ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا یا نہیںکیونکہ وزیر اعظم اس معاملے میں دوسرا فریق ہیں۔ چیف جسٹس کو اس معاملے سے خود کو الگ کرنا ہوگاکیونکہ اس کے دوسرے فریق کے ساتھ تعلقات کیس میں صاف نظر آتے ہیں۔ کیا ایسی صورت حال میں سی جے آئی چندرچڈ ہمیں انصاف فراہم کر پائیں گے؟
بی جے پی حکومتوں پر کھل کر تنقیدیں کرنے والے صحافی اشوک وانکھیڈے نے اس ملاقات پر سنجیدہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھاکہ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ جب آپ گھر میں گنپتی بٹھاتے ہوتو آپ کسی کو پوجا کےلئے آنے سے انکار نہیں کر سکتے۔ میرے خیال میں چیف جسٹس کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ مودی چونکہ سیاستداں ہیں اس لئے وہ ایسی چالوں کے ماہر ہیںکہ سامنے والے کو اپنی بات ماننے پر مجبور کردیں۔
لیکن اس معاملے میںبار کونسل آف انڈیا کے صدر اور حال ہی میں بی جے پی سے راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے منن مشرا نےکہاکہ اس ملاقات سے سپریم کورٹ کے کسی فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وزیراعظم وہاں گئے، پوجا کی اور پھر واپس آگئے لیکن اپوزیشن والے اس کےکئی معنی نکالیں گے۔ مجھے حیرت ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان بہتر تال میل کو سراہنے کے بجائے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔واضح رہے کہ فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ آیا چیف جسٹس چندرچڈ نے وزیر اعظم مودی یا دیگر کو پوجا کیلئے خود مدعو کیا تھا؟ یا وزیر اعظم خود ہی پوجا میں شرکت کے لئے پہنچ گئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی کے ذاتی اعتقاد سے کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن انتظامیہ اور عدلیہ کے اس امتزاج سے کچھ سوالات اٹھنے فطری ہیں اور وہ بھی تب جب انتظامیہ کے خلاف متعدد معاملات عدلیہ میں زیر غور ہیں۔