Inquilab Logo

شیوسینا کا بھی حمایت کا اعلان ،مُرمو کی فتح یقینی

Updated: July 13, 2022, 10:13 AM IST | new Delhi

ادھو ٹھاکرے نے حمایت کیلئے قبائلی خاتون ہونے کا جواز پیش کیا ،لیکن یشونت سنہا بھی میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، صدر بننے پرایجنسیوں کا غلط استعمال روکنے کا اعلان

With Chief Minister Ashok Gehlot Yashwant Sinha. (PTI)
وزیراعلیٰ اشوک گہلوت یشونت سنہا کے ساتھ۔(پی ٹی آئی )

 ایسا لگ رہا ہے کہ مہا وکاس اگھاڑی اب  ٹوٹنے کے دہانے پر پہنچ گئی ہے کیوں کہ ایک طرف کانگریس اور شرد پوار سمیت مشترکہ اپوزیشن نے یشونت سنہا کو اپنا امیدوار بنایا ہے وہیں دوسری طرف شیوسینا نے دونوں پارٹیوں سے الگ موقف اختیار کرتے ہوئے این ڈی اے امیدوار دروپدی مرمو کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔  ادھرادھو کے سخت مخالف اور مہاراشٹر کے نئے  وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے بھی این ڈی اے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے تمام ایم ایل اے  وزیر اعظم مودی کی ہدایت پر این ڈی اے کی امیدوار دروپدی مرمو کے حق میں ووٹ دیں گے۔
  ادھر ادھو ٹھاکرے نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے دروپدی مرمو کی حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے صدارتی الیکشن میں ہمیشہ سے ہی مختلف موقف اختیار کیا ہے، ہم نے ہمیشہ اپنے دل کی سنی ہے۔ ادھو نے بتایا کہ ان کی پارٹی نے اس سے قبل یوپی اے کے امیدوار پرنب مکھرجی اور پرتبھاتائی پاٹل کو ووٹ دیا ہے۔ اس لئے اب بھی وہ الگ راہ اختیار کرتے ہوئے دروپدی مرمو کو ووٹ کریں گے ۔ ادھو نے اس فیصلے کا جواز دروپدی مرمو کا قبائلی خاتون ہونا قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ کرنے کے لئے ان پر کوئی دبائو نہیں تھا ۔ حالانکہ یہ واضح رہے کہ شیو سینا کے اراکین پارلیمنٹ نے ادھو ٹھاکرے پر یہ دبائو بنایا تھا کہ وہ این ڈی اے کے امیدوار کو ووٹ دینے کا اعلان کریں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہاں بھی پارٹی ٹوٹنے کا امکان تھا۔ اسی لئے ادھو کو مجبوراً یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے۔
  دوسری طرف دروپدی مرمو کی حمایت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے بعد ان کی فتح یقینی قرار دی جارہی ہے۔  دروپدی مرمو کو اب تک بی جے پی کے علاوہ بی جے ڈی ، وائی ایس آر کانگریس ، لوک جن شکتی پارٹی ، جنتادل سیکولر ،اکالی دَل ،شیو سینا ، جے ڈی یو ، اے آئی اے ڈی ایم کے،اپنادَل ،نشاد پارٹی ، بی ایس پی ، آر پی آئی (اٹھائولے) اور دیگر چھوٹی چھوٹی پارٹیوں نے حمایت دینے کا اعلان کردیا ہے ۔جس کے بعد مرمو کی فتح تقریباً یقینی ہے جبکہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار یشونت سنہا حمایت حاصل کرنے کے معاملے میں پچھڑتے جارہے ہیں۔
 حالانکہ یشونت سنہا  نے اپنی انتخابی مہم جاری رکھی ہے۔  وہ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور ہر روز اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمان سے ملاقات کرکے انہیں اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ پیر کی شام انہوں نے جے پور میں  راجستھان کے وزیر اعلیٰ گہلوت کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے کئی اہم باتیں کہیں۔ یشونت سنہا جو ۸۴؍ سال کی عمر میں بھی بی جے پی اور اس کے اتحادیوں سے لوہا لے رہے ہیں اور سخت مقابلہ کررہے ہیں ، نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ۱۸؍ جولائی کو ہونے والا صدارتی انتخاب کوئی عام الیکشن نہیں ہے بلکہ یہ ملک میں مرکزی ایجنسیوں کے غلط اور مجرمانہ استعمال  کے خلاف فیصلہ کن انتخاب ہے۔ اس الیکشن میں اگر میں کامیاب ہوا تو دوسرے ہی دن سے مرکزی ایجنسیوں کے غلط استعمال پر پابندی عائد کردوں گا۔ساتھ ہی ان ایجنسیوں کے ذریعے جتنے بھی معاملوں میں گزشتہ کچھ برسوں میں کارروائی ہوئی ہے ان کی جانچ کے احکام جاری کردوں گا۔ 

یشونت سنہا نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ملک کا دستور تیار کرنے والے ہمارے عظیم لیڈران نے صدارتی الیکشن کے لئے دو  انقلابی قدم اٹھائے تھے۔ پہلا تو یہ کہ اس الیکشن کے لئے وہپ جاری نہیں کیا جاسکتا جس سے تمام اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی اپنے دل کی آواز سنتے ہوئے ووٹ کرسکتے ہیں اور دوسرا صدارتی الیکشن کے لئے ووٹنگ ’سیکریٹ بیلٹ ‘ کے طور پر ہوتی ہے۔  اسی لئے میری تمام اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمنٹ سے ایک مرتبہ پھر اپیل ہے کہ وہ ملک کے حالات اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ووٹ ڈالیںاور ایسے امیدوار کو منتخب کریں جو صرف ربر اسٹیمپ بن کر نہ رہے بلکہ حالات سنبھالنے اور بہتر بنانے کی طرف قدم بڑھانے کا اہل ہو۔ یشونت سنہا نے کہا کہ اس وقت ملک میں جان بوجھ کر فرقہ واریت کا زہر گھولا جارہا ہے ۔ حالات کو فرقہ وارانہ طور پر حساس بنایا جارہا ہے۔ ساتھ ہی ایسے ایشوز جان بوجھ کر اٹھائے جارہے ہیں جو  غیر ضروری ہے لیکن انہیں فرقہ وارانہ رنگ دے کر ملک کی فضا خراب کی جارہی ہے۔ ساتھ ہی اپوزیشن کی حکومتوں کو ختم کرنے کے ہر جائز اور ناجائز قدم اٹھارہے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں میں ہم نے مہاراشٹر میں یہ دیکھا کہ کس طرح اپوزیشن کی حکومت کو نشانہ بنایا گیا اور وہاں اپنی حکومت بنائی گئی ۔  یشونت سنہا کے مطابق انہی حالات کی وجہ سے ہم نے اپیل کی ہے کہ ملک کے تمام اراکین پارلیما ن اور اراکین اسمبلی غور کریں اور دیکھیں کہ اس وقت ملک کو کیسے صدر کی ضرورت ہے اور اسی کے مطابق ووٹ دیں۔یشونت سنہا نے رخصت پذیر صدر جمہوریہ کی خاموشی پر بھی تنقید کی اور کہا کہ اگر ہم گزشتہ ۵؍ سال کی بات کریں تو یہ بالکل واضح ہو جائے گا کہ گزشتہ ۵؍ سال راشٹر پتی بھون کی خاموشی  کے سال تھے۔ وہاں سے حکومت کی کسی بھی معاملے میں سرزنش تو جانے دیجئے گرفت تک نہیں کی گئی ۔ ہمیں  بطور ملک اور بطور قوم اقتدار کے توازن کو اپنانا بہت ضروری ہے ورنہ حالات اس سے بھی زیادہ برے ہوسکتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK