• Tue, 15 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اخلاص نیت اور خوشدلی قربانی کی اوّلین شرط ہے

Updated: June 14, 2024, 12:22 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

آج کے اس پُرآشوب دور میں جب بقول اقبال ’’ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں‘‘ والاوقت چل رہا ہے،ایسے میں دوسروں کیلئے قربانی کا جذبہ پروان چڑھانا، عید قرباں کا سب سے اہم پیغام ہے۔

The sacrifice that a person has to make for themselves is an essential part of human life, but the condition is that this sacrifice is sincere and the person is willing from the heart. Photo: INN
انسان کو اپنوں کے لئے جو قربانی دینی پڑتی ہے ، یہ انسانی زندگی کا ایک لازمی جزء ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ قربانی خلوص والی ہو اور انسان دل سے راضی ہو۔ تصویر : آئی این این

اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں انسان کے متعلق سورۃ البلد میں ارشاد فرمایا:’’ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کی تخلیق کچھ اس طرح ہوئی ہے کہ وہ تاعمر کسی نہ کسی مشقت میں اور جدوجہد میں مصروف رہتا ہے۔ایک مصیبت جاتی ہے، تو دوسری آتی ہے۔ ایک ذمہ داری سے بری ہوتا ہے تو دوسری ذمہ داری سر پر آجاتی ہے۔ مشغولیات، مصروفیات اور مشقتوں کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ انسان اپنی قبر میں نہیں پہنچ جاتا۔ کیا امیر کیا غریب، کیا گورا کیا کالا، کیا خوبصورت کیا بدصورت غرضیکہ ہر کوئی اسی مدار میں گھوم رہا ہے اور کسی کو اس سے مفر حاصل نہیں ہے۔ اللہ عزوجل اس دنیا میں وقفہ وقفہ سے اس طرح کے کلیے مختلف واقعات کے ذریعہ ہم پر واضح کرتا رہتا ہے۔ مثلاً ابھی چند ماہ قبل یہ خبر نظروں سے گزری کہ ہندوستان کے ایک امیر ترین شخص کے بیٹے کی شادی سے قبل کی تقریب میں جب ان کے بیٹے نے تقریر کی تواس نے اپنی طویل بیماریوں اور ان سے ہونے والی تکلیف کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ میری زندگی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں رہی ہے۔۔ معلوم ہوا کہ انسان ساری دنیا کا پیسہ کما کر بھی اسی مشقت اور اسی جدوجہد کا حصہ بنا رہتا ہے جس کے متعلق اللہ عزوجل نے اعلان کردیا ہے۔ 
ذمہ داریوں کو نبھانے اور مشقتوں کو اٹھانے کے اس سلسلے میں ایک کام جس کی انسان کو بہت ضرورت پڑتی ہے وہ ہے ایک دوسرے کے لئے جذبۂ قربانی۔ ہر انسان کو دیگر انسانوں کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے تبھی زندگی کا بوجھ اٹھانے کا یہ سلسلہ مکمل ہوتا ہے۔ اگر انسانوں کا ایک دوسرے کے لئے قربانی کا یہ جذبہ نہ ہو تو شاید اس کرۂ ارضی پر انسانی زندگی کا وجود اور اس کی بقاء مشکل ہوجائے۔ ماں باپ اپنے بچوں کے، بچے اپنے والدین کے، دوست دوست کے، رشتہ دار و احباب اپنے اعزاء واقرباء کے جو وقتا فوقتا اور خاص کر مشکل اوقات میں کام آتے رہتے ہیں۔ یہ اسی قربانی کے جذبے کی مثالیں ہیں جن کے ذریعہ انسانی زندگی کا نظام اس کرۂ ارضی پر باقی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: اسوۂ ابراہیمی ؑ میں ہمارے لئے سبق ہے کہ آزمائشوں میں ثابت قدم رہیں

مذہب اسلام میں ایک انسان کی دوسرے انسان کے لئے اس قربانی کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی لئے اسلام نے نہ صرف اس قربانی کے جذبہ کو سراہا ہے بلکہ مختلف پیرایۂ بیان کے ذریعہ اس کی خوب ترغیب بھی دی ہے۔اس کی ایک مثال سیرۃ النبیؐ کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ حضرت ابو طلحہ ؓ اپنے ساتھ ایک مہمان کو گھر کھانا کھلانے لے گئے۔ گھر میں کھانا کم تھا اس لئے انہوں نے چراغ بجھا دیا تاکہ مہمان کو محسوس ہو کہ وہ بھی کھاناکھارہے ہیں۔ مہمان نے تو سیر ہوکر کھایا لیکن میزبان خوشی خوشی بھوکے سوگئے۔ اللہ عزوجل ان کی اس ادا سے بہت خوش ہوا اور سورۃ الحشر میں ارشاد فرمایا: ’’یہ (لوگ ایسے ہیں کہ ) دوسروں کو اپنے آپ پرترجیح دیتے ہیں، چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ہو۔ اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں، وہی فلاح پانےوالے ہیں۔ ‘‘ 
یہ واقعہ تو صرف ایک مثال ہے ورنہ آپؐ کے لئے ہوئے دین ِ اسلام نے مسلمانوں میں قربانی کا ایک ایسا جذبہ پھونک دیا تھا کہ وہ ہر ہر قدم پر ایک دوسرے کے لئے قربانی دینے کی مثال بن کر ابھرے کہ پانی نہ پیا، پیاسے دنیا سے چلے گئے لیکن پانی کا پیالہ اپنے مرتے ہوئے بھائی کی طرف بڑھانے سے باز نہ آئے۔
اس جذبۂ قربانی کی داستان اتنی ہی طویل ہے جتنی حضرت انسان کی عمر اس دھرتی پر۔ اس لئے کہ قربانی کا تذکرہ ہمیں اس کرۂ ارضی پر سب سے پہلے انسان حضرت آدمؑ کے دور میں بھی ملتا ہے جب ہابیل اور قابیل نے اللہ کے لئے قربانی کی تھی۔ اللہ عزوجل نے لیکن ہابیل کی قربانی قبول کی تھی اور قابیل کی نہیں۔اس لئے کہ ہابیل کی قربانی میں خلوص تھا، خوش دلی تھی، رضامندی تھی۔ قربانی کے لئےشرط بھی یہی ہے کہ انسان دل کی رضامندی کے ساتھ قربانی دے رہا ہو۔ ورنہ ہچکچاہٹ والی، شکوک وشبہات والی اور بدنیتی والی قربانی کو اللہ تعالی قبول نہیں کرتے ہیں۔ یہی خوشدلی والی قربانی وہ تھی جو حضرت ابراہیمؑ نے بلاجھجھک اور بلا تردد اپنے بیٹے کی دینے کی تیاری کر لی تھی بلکہ چھری بھی چلا دی تھی۔یہی وہ بیباک قربانی ہے جو کھلے دل سے کی جانی چاہئے، جس کا تقاضہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے، اسی پر خوب اجروثواب سے نوازتا ہے۔ قربانی میں اسی نیک نیتی اور تقوے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے، نہ ان کا خون لیکن اس کے پاس تمہار ا تقوی پہنچتا ہے۔‘‘ 
ان ساری تفصیلات کو جاننے کے بعد ہم قربانی کے پیغام کی طرف چلتے ہیں کہ عید ِ قرباں کا پیغام ہی یہی ہے کہ ایک مسلمان سال بھر اور تاحیات قربانی دینے والا بنے۔ ویسے اس قربانی کی فہرست میں اسلام کے بیشمار احکامات آتے ہیں لیکن آج کے اس پُرآشوب دور میں جب بقول اقبالؒ ’’ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں ‘‘ والاوقت چل رہا ہے، ایسے میں دوسروں کیلئے قربانی کا جذبہ پروان چڑھانا، عید قرباں کا سب سے اہم پیغام ہے۔ یہ ایثار و قربانی بھی دل سے ہو جو کہ اسلامی تعلیمات کے تحت قربانی کا سب سے اہم تقاضہ ہے۔ ہم قربانی دے کر ریا کرنے والے نہ بنیں۔ ہم قربانی دے کر اس قربانی کو بعد میں اپنے مفاد کے لئے استعمال نہ کریں۔ اسی طرح ہم قربانی دے کر احسان جتلانے والے نہ بنیں۔ 
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انسان کو اپنوں کے لئے جو قربانی دینی پڑتی ہے، یہ انسانی زندگی کا ایک لازمی جزء ہے لیکن شرط یہ ہے کہ یہ قربانی خلوص والی ہو اور انسان دل سے راضی ہوکر یہ قربانی دے رہا ہو۔پھر ایسی قربانی کا ایک الگ مزہ ہوتا ہے، اس میں ایک الگ تاثیر ہوتی ہے، اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اور قربانی دینے والے کو دنیا و آخرت کی کامیابیوں سے نوازتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اس قربانی میں کوئی مطلب پرستی ہو اور نیت میں اخلاص نہ ہو تو پھریہ قربانی کاغذ کے پھول کی طرح بن جاتی ہے، جو ہر قسم کی خوشبو اور لطف سے محروم رہتی ہے۔ عیدقرباں کا یہ ایک نہایت ہی اہم پیغام ہے۔ اے کاش کہ حضرتِ انساں اس پیغام کو سمجھنے والے اور اس کو عملی زندگی میں برتنے والے بن جائیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK