• Wed, 29 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ایس آئی آرقبول نہیں، الیکشن کمیشن تحلیل کیا جائے!‘‘

Updated: October 28, 2025, 10:49 PM IST | Chennai

۳۰۰؍ سے زائد سماجی تنظیموں اور کارکنوں کا مطالبہ، قرار داد منظور کی جس میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی شفافیت اور غیر جانبداری سے سمجھوتہ ہو چکا ہے ، اسے تبدیل کرنا ضروری ہے

Social organizations have also raised serious questions on the appointment of Chief Election Commissioner Gianish Kumar. (Photo: PTI)
چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کی تقرری پر بھی سماجی تنظیموں نے سنگین سوال اٹھائے ہیں۔ (تصویر: پی ٹی آئی )

تمام تر مخالفتوں اور اندیشوں کےباوجود کسی بھی اعتراض کو خاطر میں نہ لاتے ہوئےالیکشن کمیشن ملک گیر ایس آئی آر کا اعلان کرچکا ہے جس کے پہلے مرحلے میں ۱۲؍ ریاستوں میں ووٹر لسٹ پر خصوصی نظر ثانی ہو گی۔  اس اعلان پر متوقع خطوط پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے لیکن اس  اعلان سے ایک دن قبل ہی شہری و سماجی حقوق کے کارکنوں، سابق اعلیٰ افسران اور سماجی تحریک کے ۳۰۰؍ سے زائد علمبرداروں نےچنئی میں منعقدہ’’ نیشنل کانکلیو آن ڈیموکریٹک گورننس اینڈ سٹیزنس رائٹس‘‘ میں ایس آئی آر کے خلاف ایک مشترکہ’عوامی قرارداد‘منظور کی۔اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیاکی غیرجانبداری اور شفافیت بری طرح متاثر ہو چکی ہے، اس کے کسی بھی اعلان سے جانبداری اور غیرشفافیت واضح طور پر جھلکتی ہے اسی لئے اس الیکشن کمیشن کو فوراً تحلیل کیا جائے اور اس کی جگہ ایک نیا اورتمام طرح کے سیاسی دبائو سےآزاد الیکشن کمیشن قائم کیا جائے ۔ اس کے ساتھ ہی  موجودہ الیکشن کمیشن کا اعلان کردہ ایس آئی آر فوراً منسوخ کیا جائے۔ 
 اجلاس کا انعقاد مدراس اسکول آف سوشل ورک نے کیا تھا اور اس میں سابق جسٹس ہری پرنتھامن، پی یو سی ایل کے جنرل سیکریٹری وی سریش، سابق آئی اے ایس افسران آر بالا کرشنن ، ایم جی دیوا سہایم، انجلی بھاردواج اور ڈاکٹر وی پونراج(سابق سائنسی مشیر برائے ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام) سمیت متعدد اہم شخصیات شریک تھیں۔ شرکاء نے الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلوں اور ووٹر لسٹ میں مبینہ تبدیلیوں کو انتخابات کی ساکھ  اور جمہوریت کی صحت کےلئے سنگین خطرہ قرار دیا۔  نیوز منٹ کی رپورٹ کے مطابق قرارداد میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ۲۰۲۴ءکے روایتی طور پر نسبتاً شفاف الیکشن کے عمل کے بعد اب ’’بنیادی طور پر بگاڑ‘‘ آ چکا ہے۔دعویٰ کیا گیا کہ گمراہ کن اور غیر آئینی مداخلتوں کے نتیجے میں مرکز میں ایک ایسی حکومت وجود میں آ گئی ہے جو ’’منحرف اور غیر قانونی مینڈیٹ‘‘  پر  قائم ہے۔ قرارداد  میں اس صورتِ حال کو درست کرنے کیلئے مرکزی حکومت کو بھی فوراً برخاست کرنے اور پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔  شرکاء نے اس کنونشن میں متعدد اہم سفارشات کی ہیں جن میںتمام پولنگ مراکز پر ۱۰۰؍فیصد وی وی پیٹ ویری فکیشن سسٹم ، الیکشن کمیشن کے اختیارات کی مرکزیت کم کرکے ریاستی سطح پر مضبوط نگرانی کے میکانزم، فہرست رائے دہندگان کو مشین ریڈایبل آن لائن فارمیٹس میں جاری کرنا، مہاجر مزدوروں کے لئے ڈاک ووٹ کی سہولت اور کسی بھی نام کے اندراج یا اخراج سے قبل ووٹر یا اس کے اہلِ خانہ کو پیشگی اطلاع دینا  جیسی شقیں شامل  ہیں ۔
 قرارداد  میں۲۰۲۳ء میں انتخابی کمشنرس کی تقرری کے طریق کار میں کی گئی ترمیم کی بھی مذمت کی گئی جس کے تحت تقرری کے انتخابی پینل سے چیف جسٹس آف انڈیا کو ہٹا کر ایک مرکزی وزیر کو شامل کیا گیا ہے۔ شرکاء نے اس تبدیلی کو الیکشن باڈی کی خودمختاری کے  لئے سنگین خطرہ قرار دیا اور موجودہ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کی تقرری کو متنازع  بتایا۔ یہ بھی کہا گیا کہ یہ  ایسی تقرری  ہے جسے پہلے بھی عدالت میں چیلنج کیا جاچکا ہے۔  کانکلیو میں شریک  اہم سماجی شخصیات  نے واضح الفاظ میں کہا کہ جب تک انتخابی عمل کے حوالے سے آزاد، غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات نہیں کرائی جاتیں،  الیکشن کے سسٹم اور ووٹنگ پر عوام کا اعتماد بحال نہیں ہوگا۔ اجلاس کے اختتام پر شرکاء نے حکومت، الیکشن کمیشن اور عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ سول سوسائٹی کی تشویش کا از خود نوٹس لیں اور ایک آزاد انکوائری کمیٹی تشکیل دیں جو تمام شواہد کی آزادانہ جانچ کرے  ۔ 
 ملک گیر ایس آئی آر کا اعلان اپوزیشن کے سخت اعتراض کے باوجود کیا گیا ہے۔  ایس آئی آر کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس عمل کے دوران ناموں کو غیرشفاف طریقے سے حذف کیا جارہا ہے۔ بہار میں کیا جانے والا ایس آئی آر اس کی واضح مثال ہے لیکن الیکشن کمیشن نے اس الزام کو بھی مسترد کردیا ہے۔   واضح رہے کہ ۲؍ ماہ قبل  اگست میں ہی اپوزیشن لیڈر  راہل گاندھی نے بھی الیکشن کمیشن پر ’’ووٹ چوری‘‘ اور ووٹر لسٹ میں جعل سازی کے سنگین الزامات عائد  کئے تھےجن کے جواب میں چیف الیکشن کمشنر نے ان سے ثبوت بطور حلف نامہ مانگے تھے ۔ الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو کئی بار ’’بے بنیاد‘‘ قرار دیا  اور راہل گاندھی کو ثبوت دینے یا  معافی مانگنے تک کا نوٹس دے دیا۔ ماہرین قانون اور انتخابی امور کے مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات میں ووٹرس کا اعتماد بحال کرنے کے  لئےووٹر لسٹ کی آن لائن دستیابی اور انتخابی اداروں میں تقرری کے طریقہ کار میں بنیادی اصلاحات اشد ضروری ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK