رخصت پزیر چیف جسٹس سنجیو کھنہ جو ۱۳؍ مئی کو سبکدوش ہوجائیں گے، نے مودی حکومت کی جانب سے پیش کردہ ایک ہزار ۳۳۲؍ صفحات پر مشتمل حلف نامہ کو تھکا دینےوالا قراردیا، کہا کہ گہرائی سے پڑھ نہیں سکے
EPAPER
Updated: May 06, 2025, 11:01 AM IST | New Delhi
رخصت پزیر چیف جسٹس سنجیو کھنہ جو ۱۳؍ مئی کو سبکدوش ہوجائیں گے، نے مودی حکومت کی جانب سے پیش کردہ ایک ہزار ۳۳۲؍ صفحات پر مشتمل حلف نامہ کو تھکا دینےوالا قراردیا، کہا کہ گہرائی سے پڑھ نہیں سکے
سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی پٹیشنوں پر پیر کو سماعت کے دوران مودی سرکار کی جانب سے داخل کئے گئےحلف نامہ میں ’’متنازع اعدادوشمار‘‘ کا حوالہ دیا ہے تاہم سماعت ۱۵؍ مئی تک ملتوی کردی۔ اس طرح اب اس معاملے پر شنوائی ملک کےاگلے چیف جسٹس بی آر گوئی کی قیادت والی بنچ کرےگی۔
رخصت پزیر چیف جسٹس سنجیو کھنہ جو ۱۳؍ مئی کو سبکدوش ہو جائیں گے، نے پیر کو سماعت کے آغاز پر قانون کو چیلنج کرنےوالی پٹیشنوں پرمرکزی حکومت کے جوابی حلف نامہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’کچھ پہلو ایسے ہیں جن پر مرکز نے جواب دیاہےمگر ان میں وضاحت کی ضرورت ہے۔ میں اس مرحلے پر کوئی عبوری حکم سنانا چاہتا۔ اس معاملے کی جلد سماعت ضروری ہے مگر میرے سامنے یہ ممکن نہیں ہے۔‘‘چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’’ میں (مرکز کے ) جوابی حلف نامہ کو بہت گہرائی سے نہیں پڑھ سکا۔ ہاں ، آپ نے (وقف املاک کے) رجسٹریشن سے متعلق کچھ نکات اٹھائے ہیں اور کچھ متنازع اعدادوشمار بھی دیئے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اس پر مرکز کی پیروی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہاکہ’’ہمیں خوشی ہوتی اگر یہ سماعت آپ ہی کرتے، ہمارے پر ہراعتراض کا جواب ہے لیکن ہم آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتے کیونکہ وقت کم ہے۔‘‘ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’’مرکز کا حلف نامہ تھکا دینےوالاہے جس میں پچھلی سماعت میں جن امور پر سوال اٹھائے گئے تھے ان کے جواب دیئے گئے ہیں۔‘‘ چیف جسٹس نے مرکز کے حلف نامہ کے جواب میں پرسنل لاء بورڈ کے حلف نامہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مرکز نے جو اعدادوشمار پیش کئے ہیں ان پر فریق مخالف نے اعتراض کیا ہے اور ان پر توجہ سے سماعت کی ضرورت ہے۔
مرکز نے قانون پر کئے گئے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے ایک ہزار ۳۳۲؍ صفحات پر مشتمل حلف نامہ داخل کیا ہے اور وقف (ترمیمی) ایکٹ۲۰۲۵ء کا دفاع کرتے ہوئے ا س کے خلاف کسی بھی’’عبوری حکم‘‘ کی مخالفت کی ہے۔ اس نے قانون کے حق میں یہ دلیل بھی دی ہے کہ پارلیمنٹ نے یہ قانون ’’مناسب بحث‘‘ کے بعد منظور کیا ہے۔