مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام کیسر باغ ڈونگری میں منعقدہ ’ تحفظ اوقاف کانفرنس ‘ میں مقررین کے خطابات ۔کہا:کیا اب ہمیں نمازکی ادائیگی کیلئےبھی فیس ادا کرنی پڑسکتی ہے
EPAPER
Updated: June 22, 2025, 9:41 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام کیسر باغ ڈونگری میں منعقدہ ’ تحفظ اوقاف کانفرنس ‘ میں مقررین کے خطابات ۔کہا:کیا اب ہمیں نمازکی ادائیگی کیلئےبھی فیس ادا کرنی پڑسکتی ہے
وقف ترمیمی قانون کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام’ تحفظ اوقاف کانفرنس ‘ کا۲۰ ؍جون بروز جمعہ کی شب میںـ کیسرباغ ہال(ڈونگری ـ)میں انعقاد عمل میںآیا۔ اس میں مقررین اوربورڈ کے ذمہ داران نے ایک مرتبہ پھر دوٹوک انداز میںاپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اس سیاہ قانو ن کے واپس لئےجانے تک مہم جاری رہے گی ۔
یادرہے کہ پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے طے شدہ مہم کا پہلامرحلہ ۸؍جولائی کو مکمل ہوگا۔ اس وقت تک مختلف علاقوں میںمیٹنگیں اور اجلاس کا سلسلہ جاری رہےگا۔
مذہب مخالف قانون کی شدت سے مخالفت ضروری
بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی نے اپنے صدارتی خطاب میںکہاکہ ’’ وقف ترمیمی قانون حکومت کے ذریعے پاس کردہ محض ایک سیاہ قانون ہی نہیں یہ ہمارے لئے زندگی اور موت کامسئلہ ہے۔اس کے خطرناک اثرات زندگی کے ہرشعبے خواہ مذہبی ہو، سماجی ہو یا معاشی سبھی پر پڑینگے۔‘‘ انہوں نےیہ بھی کہاکہ ’’اس قانون کے لائے جانے کا سیاسی پس منظر بھی ہے،اسی تناظر میںیہ قانون ہم پرتھوپا گیا ہے۔ اس کے خطرناک اور نقصان دہ اثرات کے سبب ہی اس کی شدت سے مخالفت کی جارہی ہے ۔‘‘
مولانا مجددی نے ایک اہم نکتہ واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’’بعض مذہبی حلقوں کی جانب سے نرم گوشہ اختیار کرتے ہوئے کہا جارہا ہےکہ حکومت کے ذریعے پاس کردہ قانون کوقبول کرلینا چاہئے، یہ بالکل غلط ہے ۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب کوئی قانون مذہب مخالف اورآئین مخالف ہو یا کسی خاص طبقے کو نقصان پہنچانے کی غرض سے لایاجائے تو اسے قبول کرنا نہیںبلکہ اسکے خلاف آوازبلند کرنا ضروری ہے، یہی وقف ترمیمی قانو ن کے تعلق سے بورڈ کا موقف ہے ۔‘‘
آخری دم تک لڑنے کاعہد
سابق رکن پارلیمنٹ اور بورڈ کے رکن مولانا عبیداللہ خان اعظمی نے اپنے مخصوص انداز میں خطاب کرتےہوئے مودی حکومت کو ہدف تنقید بنایا اورکہاکہ ’’ اس سیاہ قانون کی مخالفت ہم سب نے شروع دن سے کی تھی، اس کے خلاف آخری دم تک لڑیںگے اور جب تک ظالم حکومت یہ سیاہ اور ظالمانہ قانون واپس نہیںلیتی ہے، ہم آواز بلند کرتے رہینگے۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ آئین مخالف یہ قانون ہم پر تھوپا گیا ہے۔اس کا مقصد اوقاف کی املاک کوہڑپ کرنا ہے۔ ‘‘
رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی نےکہاکہ ’’ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ قانون واپس لیا جائے ۔‘‘ سابق رکن اسمبلی وارث پٹھا ن نےکہاکہ’’ ہماری پارٹی کی جانب سے ابتداء سے ہی اس قانون کی مخالفت کی گئی اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی پارلیمنٹ میںجم کراس قانون کی دھجیاں بکھیری تھیں، ہم سب آج بھی اسی موقف پرقائم ہیںاورپرسنل لاء بورڈ کے ساتھ ہیں ۔‘‘
شیعہ عالم دین مولانا کمال احمدخان نے کہا کہ ’’ آج کا دن بہت اہم ہے ،ہم اسے عید ِمباہلہ کا نام دیتے ہیں۔ اِسی دن رسول اکرمؐ نجران کے عیسائیوںکے خلاف اپنے اہل بیت کےساتھ نکلے تھےمگر وہ سامنے نہیںآئے تھے۔‘‘ رکن اسمبلی امین پٹیل نےکہاکہ ’’ وقف املاک اللہ کی ملکیت ہوتی ہے، اسے کوئی ہتھیائےیا قبضے میں لے، کس طرح قبول کیاجاسکتا ہے، یہی اس قانون کی اصل ہے۔ اسی لئے ہم سب اسکے مخالف ہیں۔ حکومت سے ہمارا مطالبہ ہےکہ قانون واپس لیا جائے۔‘‘
مولانا محمودخان دریابادی نےنظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے کہاکہ ’’یہ دھوکےباز حکومت ہے۔ پہلے ۴۰؍ نکات لائے گئے تھے بعد میں بڑی عیاری سے۴؍ نکات بڑھادیئے گئے جس سے اوقاف کی املاک کے تعلق سے کئی طرح کی مزیدپیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ ‘‘
مولانانےحکومت کوہدف تنقید بناتے ہوئے یہ بھی کہاکہ ’’ اب تو حالات ایسے پیدا کئےجارہے ہیں کہ ہر نماز کےلئے فیس ادا کرنا پڑسکتا ہے، یہ سلسلہ دہلی کے فیروز شاہ قلعہ مسجد میں جانے کیلئے ۲۵؍روپےکی فیس سے شروع بھی کردیا گیا ہے ۔ پہلے اس مسجد میں نماز ادا کرلی جاتی تھی لیکن اب یہاںجانے کیلئے ۲۵؍ روپے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس لئے سبھی کوحالات کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہو ئے خود کو تیار کرلینا چاہئے۔‘‘