سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس سے پہلے نشان دہی کی تھی کہ مختلف ہائی کورٹس اس حساس معاملے پر مختلف فیصلے دے رہی ہیں، جس سے سپریم کورٹ میں متعدد ایس ایل پی دائر کی جا رہی ہیں۔
EPAPER
Updated: August 19, 2025, 8:01 PM IST | New Delhi
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس سے پہلے نشان دہی کی تھی کہ مختلف ہائی کورٹس اس حساس معاملے پر مختلف فیصلے دے رہی ہیں، جس سے سپریم کورٹ میں متعدد ایس ایل پی دائر کی جا رہی ہیں۔
سپریم کورٹ نے منگل کو نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) کی اس عرضی کو خارج کر دیا جس میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے ایک مسلم لڑکی کو بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد اپنی پسند کے شخص سے شادی کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس بی وی ناگ رتنا اور جسٹس آر مہادیون کی بنچ نے اسپیشل لیو پٹیشن (ایس ایل پی) داخل کرنے میں حقوقِ اطفال کے میدان میں سرگرم اس تنظیم کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا۔ بنچ نے نوٹ کیا کہ زیر بحث حکم صرف دو افراد کو تحفظ فراہم کر رہا تھا اور اس میں این سی پی سی آر کی مداخلت کی ضرورت نہیں تھی۔
این سی پی سی آر نے دلیل دی کہ یہ معاملہ قانون سے جڑا ایک اہم سوال اٹھاتا ہے کہ آیا ایک نابالغ مسلم لڑکی پرسنل لاء کی بنیاد پر ایک درست شادی کر سکتی ہے؟ تاہم، سپریم کورٹ نے اس عرضی کو مسترد کر دیا اور زور دیا کہ وہ شادی کی عمر سے متعلق پرسنل لاء اور جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ کے ایکٹ (پوکسو) جیسی قانونی دفعات کے درمیان تنازع کے وسیع تر مسئلے کو کھلا نہیں رکھے گی۔ جسٹس ناگ رتنا نے عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر ہائی کورٹ آرٹیکل ۲۲۶ کے تحت اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دو افراد کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے تو این سی پی سی آر کو ایسے حکم کو چیلنج کرنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔“
یہ بھی پڑھئے: اے ایم یو:’ وی سی‘ کی تقرری کے عمل پرسوال قائم
مقدمہ کا پس منظر
واضح رہے کہ اس سے پہلے، سپریم کورٹ نے این سی پی سی آر کی عرضی پر مرکزی حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کیا تھا لیکن واضح کیا تھا کہ پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگانے سے انکار کو نظیر نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے نے تسلیم کیا تھا کہ ایک مسلم لڑکی جو ۱۵ سال کی عمر کو پہنچ چکی ہے وہ مسلم پرسنل لاء کے تحت شادی کر سکتی ہے۔ یہ کیس ایک ۲۶ سالہ شخص کی جانب سے دائر کی گئی ہیبیس کارپس پٹیشن سے شروع ہوا تھا جس میں اس نے اپنی ۱۶ سالہ بیوی کو پنچکولہ کے ایک بچوں کے گھر سے رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ ایسی شادی بچوں کی شادی کے ممانعت ایکٹ، ۲۰۰۶ء کی دفعہ ۱۲ کے تحت کالعدم نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: لوک نیتی سی ایس ڈی ایس سروے: دستاویزات کی کمی سے غریبوں کے ووٹ کا حق خطرے میں
این سی پی سی آر کے خدشات
اپنی عرضی میں، این سی پی سی آر نے دلیل دی تھی کہ ازدواجی حیثیت سے قطع نظر، ۱۸ سال سے کم عمر کی لڑکی کے ساتھ جنسی تعلقات، پوکسو کے تحت حملے میں شمار ہوتے ہیں۔ تنظیم نے اسے نظر انداز کرنے پر ہائی کورٹ کے فیصلے کو غلط ٹھہرایا تھا اور پرسنل لاء اور بچوں کے تحفظ کے قوانین کے درمیان قانونی تنازع پر وضاحت طلب کی تھی۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس سے پہلے نشان دہی کی تھی کہ مختلف ہائی کورٹس اس حساس معاملے پر مختلف فیصلے دے رہی ہیں، جس سے سپریم کورٹ میں متعدد ایس ایل پی دائر کی جا رہی ہیں۔
منگل کے فیصلے کے ساتھ، سپریم کورٹ نے اشارہ دیا کہ اگرچہ وسیع تر سوالات حل طلب ہیں، لیکن بچوں کے حقوق کی یہ تنظیم انفرادی معاملات میں ہائی کورٹس کی جانب سے دیئے گئے تحفظ کے احکامات کو چیلنج نہیں کر سکتی۔