وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کی تقرری کے خلاف داخل کردہ اسپیشل لیوپٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نےوائس چانسلر کی تقرری پر کہا کہ جب اہلیہ کا نام زیر غور ہو توایگزیکٹیو کاؤنسل کے پینل میں شامل شوہر کا میٹنگ میں شامل ہونا شبہ پیدا کرتا ہے
EPAPER
Updated: August 19, 2025, 12:35 PM IST | Farzan Qureshi | New Delhi
وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کی تقرری کے خلاف داخل کردہ اسپیشل لیوپٹیشن پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نےوائس چانسلر کی تقرری پر کہا کہ جب اہلیہ کا نام زیر غور ہو توایگزیکٹیو کاؤنسل کے پینل میں شامل شوہر کا میٹنگ میں شامل ہونا شبہ پیدا کرتا ہے
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون کی تقرری پر سپریم کورٹ نے اس بنیاد پر سوال اٹھایا کہ جس ایگزیکٹیو کونسل نے پینل کے لئے ان کے نام کا انتخاب کیا تھا اس کونسل میں ان کے شوہر پروفیسر محمد گلریز شامل تھے ۔عدالت نے زبانی طور پر کہاکہ سابق وائس چانسلر کو اس میٹنگ میں شرکت نہیں کرنی چاہیے تھی جب ان کی اہلیہ کے نام پر غور کیا جارہا تھا۔ دراصل پروفیسر محمد گلریز اس وقت اے ایم یو کے کارگزار وائس چانسلر تھے۔ اس دوران جسٹس چندرن نے خود کو اس معاملہ سے الگ کرلیا ہے۔ تاہم ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایشوریہ بھاٹی نے دلیل دی کہ پروفیسر نعیمہ خاتون بہترین تعلیمی ریکارڈ والی خاتون ہیں اور انہوںنے اے ایم یو کی پہلی خاتون وائس چانسلر بن کر تاریخ رقم کی ہے۔
قابل ذکرہے کہ اس سے قبل الٰہ آباد ہائی کورٹ نے پروفیسر نعیمہ خاتون کی تقرری کو برقرا ررکھاتھا۔ اس فیصلہ کے خلاف پروفیسر مظفر عروج اور پروفیسر فیضان مصطفی نے سپریم کورٹ میں اسپیشل لیو پٹیشن ( ایس ایل پی ) دائر کی تھی۔عرضی گزاروں کی پیروی کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے پروفیسر نعیمہ کی تقرری کو ا س لیے غلط قرار دیا کیونکہ ان کے شوہرنے ایکٹنگ کونسل اور یونیورسٹی کورٹ کی میٹنگ کی صدارت کی تھی تاہم اس میں ان کانام ڈِین کو بھیجے جانے والے پینل میں شامل تھا، انہوںنے یہ بھی کہاکہ اگر وائس چانسلروں کی تقرری اسی طرح ہوتی رہی تو میں یہ سوچ کر کانپ اٹھتا ہوں کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔ دوسر ی جانب سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس با ت سے اتفاق کیا کہ وائس چانسلر کا خود کو شنوائی سے الگ کرلینا مناسب ہوتا ہے۔ لیکن انہوںنے یہ بھی کہاکہ جب شرکت کے قانون کسی تقاضہ کو پورا کرنا ہوتو اس عمل کو ناقص قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
اس معاملہ کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی ، جسٹس کے ۔ ونود چندرن اور جسٹس این وی انجاریا کررہے تھے۔نیز بینچ نے کپل سبل کی دلیل سے اتفاق بھی کیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے خود یہ تبصرہ کیا تھا کہ وائس چانسلر کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ کارروائی سے باہر نکل جاتے اور اگلے سینئر شخص کو صدر بنادیتے۔ انہوںنے یہ بھی کہاکہ عام طور پر ،جب ہم کالیجیم میں بیٹھتے ہیں تو بار سے کسی جونیئر کے نام پر غور ہوتا ہے تب بھی ہم شنوائی سے خود کو الگ کرلیتے ہیں، جب اہلیہ کا نام زیر غور ہو تو شوہر کا اس میں شامل ہونا شبہ پیدا کرتا ہے۔
اس دوران جسٹس چندر ن نے خود کو اس معاملہ سے الگ کرنے کی بات کہی اور کہاکہ پٹنہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر وہ چانکیہ نیشنل لا ء یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر تھے، جنہوںنے پروفیسر فیضان مصطفی کو سی این ایل یو کا وائس چانسلر مقرر کیا تھا۔ اس پر سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہاکہ آپ کوشنوائی سے الگ ہونے کی ضرورت نہیں ہے،ہمیں آپ پر پورا اعتماد ہے، اگر آپ نے ان کا انتخاب کیا بھی تھا تو بھی آپ فیصلہ لے سکتے ہیں۔ اس پر جسٹس چندرن نے کہاکہ یہاں معاملہ طرفداری کا ہے لہٰذا میرا اس سے الگ ہونا ہی مناسب ہے۔ اس پر جسٹس گوائی نے یہ معاملہ اس بینچ کے سامنے رکھنے کا حکم دیا جس کا حصہ جسٹس چندرن نہیں تھے۔