انتخابی فہرستوں کی خصوصی نظرثانی (ایس آئی آر) میں دستاویزات کی شرط نے غریب اور پسماندہ طبقات کو شدید خدشات میں ڈال دیا ہے۔ لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس سروے کے مطابق اس عمل نے عوامی اعتماد کو متزلزل کر کے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔
EPAPER
Updated: August 18, 2025, 9:57 PM IST | New Delhi
انتخابی فہرستوں کی خصوصی نظرثانی (ایس آئی آر) میں دستاویزات کی شرط نے غریب اور پسماندہ طبقات کو شدید خدشات میں ڈال دیا ہے۔ لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس سروے کے مطابق اس عمل نے عوامی اعتماد کو متزلزل کر کے الیکشن کمیشن کی ساکھ پر سوال اٹھا دیئے ہیں۔
مطالعہ جس کا عنوان ہے ’’How document deficits may risk disenfranchising the poor, eroding trust in the Election Commission‘‘ اور جو روزنامہ’’ دی ہندو ‘‘میں شائع ہوا، اس میں یہ مشاہدہ کیا گیا کہ شناخت اور رہائش کے دستاویزات کی ضرورت اگرچہ نسبتاً خوشحال شہریوں کو ’’معقول‘‘ لگ سکتی ہے لیکن جیسے جیسے سماجی درجے میں نیچے اترا جائے، یہ تقاضا مشکل اور اخراج کا باعث بنتا جاتا ہے۔ تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ معاشی حیثیت، ذات پات اور علاقائی تفاوت ایک ساتھ مل کر انتخابی فہرستوں کی خصوصی نظرثانی (ایس آئی آر) کے عمل میں سنگین رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ اعداد و شمار دستاویزات کی ملکیت میں واضح عدم مساوات کو ظاہر کرتے ہیں۔ آدھار تقریباً سب کے پاس ہے لیکن جنرل زمرے کے ہر دس میں سے نو افراد کے پاس پین کارڈ ہے جبکہ درج فہرست ذاتوں (ایس سی) اور درج فہرست قبائل (ایس ٹی) میں یہ تناسب صرف آدھے سے کچھ زیادہ ہے۔
پاسپورٹ سبھی طبقات میں نایاب ہیں۔ جنرل زمرے میں بمشکل پانچ میں سے ایک، جبکہ ایس سی میں صرف۵؍ فیصد اورایس ٹی میں ۴؍ فیصد لوگوں کے پاس پاسپورٹ ہے۔ پیدائش سرٹیفکیٹ کی ملکیت خاص طور پر کم ہے کسی بھی ذات کے آدھے سے کم لوگوں کے پاس یہ موجود ہے، جن میں ایس سی سب سے پیچھے ہیں جہاں صرف چار میں سے ایک کے پاس ہے۔ اگر پورے خاندانوں کو دیکھا جائے تو صرف ہر دس غریب گھرانوں میں سے ایک نے کہا کہ ہر بالغ فرد کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ موجود ہے۔ معاشی حیثیت فرق کو مزید وسیع کر دیتی ہے۔ امیروں میں تقریباً نصف کے پاس پاسپورٹ ہے جبکہ غریبوں میں یہ شرح بمشکل بیس میں سے ایک ہے۔
Findings from the latest Lokniti-CSDS survey, featured in @the_hindu (August 17, 2025), reveal how deficits in essential documentation extend beyond individual exclusion to entire households, disproportionately affecting poorer and marginalized communities.
— Lokniti-CSDS (@LoknitiCSDS) August 17, 2025
The analysis… pic.twitter.com/rWmkgYQnGJ
سروے کے مطابق یہ صورتحال نسلی اور تعلیمی پسماندگی کی عکاسی کرتی ہےکیونکہ غریب گھرانوں کے بزرگ افراد کو رسمی تعلیم اور سرکاری شناخت حاصل کرنے کے مواقع کم ملے۔ علاقائی فرق بھی شدید ہیں۔ اتر پردیش میں بمشکل ہر پانچ میں سے تین افراد کے پاس مطلوبہ دستاویزات موجود نہیں ہے، اس کے بعد دہلی میں ہر چار میں سے ایک سے زیادہ کو یہی مسئلہ درپیش ہے۔ مدھیہ پردیش میں ۶۱؍فیصد، اتر پردیش میں ۵۸؍ فیصداور مغربی بنگال میں ۵۱؍ فیصد نے بتایا کہ ان کے پاس کم از کم ایک مطلوبہ دستاویز نہیں جبکہ کیرالا میں یہ شرح صرف۱۸؍ فیصد ہے۔ کمزور گروہ جیسے ناخواندہ (۴۲؍ فیصد)، معمر (۴۱؍فیصد)، غریب (۳۹؍ فیصد)اور دیہی باشندے (۳۲؍فیصد) سب سے زیادہ خطرے میں ہیں اگر پیدائش سرٹیفکیٹ کو ووٹر فہرست کی نظرثانی کیلئےلازمی قرار دیا گیا۔ عوامی رائے سے ظاہر ہوا کہ بے گناہ شہریوں کے اخراج کے خدشات مضبوط ہیں۔ تقریباً نصف (۴۵؍ فیصد) جواب دہندگان کو یقین ہے کہ اصلی ووٹروں کو بھی ویریفکیشن کے دوران فہرست سے نکال دیا جائے گا جبکہ صرف ایک چوتھائی کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔
سروے نے الیکشن کمیشن پر اعتماد میں غیر معمولی کمی کو بھی ریکارڈ کیا
بمشکل ایک چوتھائی سے کچھ زائد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ ’’بہت پُراعتماد‘‘ ہیں کہ تمام اہل ووٹروں کو فہرست میں رکھا جائے گا جبکہ چھٹے حصے نے کہا کہ انہیں ’’زیادہ اعتماد نہیں ‘‘ اور تقریباً ہر دس میں سے ایک نے کہا کہ انہیں ’’بالکل بھی اعتماد نہیں ‘‘۔ اہم ریاستوں میں اعتماد کی شرح تیزی سے گری ہے۔ اتر پردیش میں ۲۰۱۹ء میں جہاں ۵۶؍ فیصد نے الیکشن کمیشن پر ’’زیادہ اعتماد‘‘ کا اظہار کیا تھا، ۲۰۲۵ء میں یہ شرح صرف۳۱؍ فیصد رہ گئی، مغربی بنگال میں ۶۸؍ فیصد سے۴۱؍ فیصد پر آ گئی۔ اسی طرح آسام، کیرالا اور مدھیہ پردیش میں بھی نمایاں کمی نوٹ کی گئی۔ دی ہندو نے اس کمی کو ’’تشویشناک‘‘ قرار دیا اور خبردار کیا کہ یہ انتخابی عمل کی ساکھ کو ہی متزلزل کر سکتا ہے۔
لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس (Lokniti-CSDS) کے سروے نے واضح کیا کہ جانچ کا یہ عمل غیر منصفانہ طور پر بوجھ شہریوں پر ڈال دیتا ہے کہ وہ دستاویزات فراہم کریں جبکہ ان تک رسائی یقینی بنانا دراصل حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ بھی خبردار کیا گیا کہ اس کے اثرات صرف ووٹر فہرست سے نام خارج ہونے تک محدود نہیں بلکہ سطح پر سماج کے کم مراعات یافتہ افراد کو مکمل طور پر مشکوک شہریوں کے درجے تک دھکیلنے کا خطرہ ہے۔ مطالعے نے دلیل دی کہ ایسا اخراج الیکشن کمیشن کی قانونی حیثیت کو مجروح کر سکتا ہے، جو ایک سنگین نتیجہ ہے کیونکہ انتخابات کو آزاد اور منصفانہ تسلیم کرانے میں اس کی ساکھ مرکزی اہمیت رکھتی ہے۔
Do read this report and ponder why trust in Election Commission has eroded. The right wing approach is to say that by questioning the institution you are eroding public trust! But a public institution is always subject to scrutiny in a democracy. That posture of don’t ask… https://t.co/DbpSIn7yT5
— Saba Naqvi (@_sabanaqvi) August 17, 2025
سیاسی کارکن یوگندر یادو نے سروے پر ردِعمل دیتے ہوئے ’ایکس‘ پر ’’الیکشن کمیشن پر عوامی اعتماد میں شدید کمی‘‘ کو کمیشن کے سربراہ کی کارکردگی سے جوڑا اور کہا: ’’اب آپ کو معلوم ہے کیوں۔ ‘‘مصنفہ صبا نقوی نے رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے قارئین کو یہ سوچنے پر زور دیا کہ ’’الیکشن کمیشن پر اعتماد کیوں کم ہوا‘‘ اور کہا کہ ’’جمہوریت میں عوامی ادارہ ہمیشہ احتساب کے دائرے میں رہتا ہے۔ سوال نہ پوچھنے کا رویہ صرف آمرانہ حکومتوں میں ہوتا ہے۔ ‘‘این سی پی کے ترجمان انیش گوانڈے نے اسے ’’تشویشناک‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس کے سروے میں دکھائی گئی اعتماد میں کمی سب کیلئے فکرمندی کا باعث ہونی چاہئے کیونکہ لوگ ہندوستان کے سب سےمعتبر اداروں میں سے ایک پر ایمان کھوتے جا رہے ہیں۔ ‘‘بتا دیں کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) پہلے ہی کڑی جانچ کے دائرے میں ہے، کیونکہ کانگریس لیڈرراہل گاندھی کی جانب سے انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے گئے ہیں، بالخصوص ’’ووٹ چوری‘‘ اور ووٹر فہرست میں ہیرا پھیری کے دعوے۔