Inquilab Logo

’’۱۰؍لاکھ اموات کورونا ویکسین کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہوئیں‘‘

Updated: November 12, 2022, 11:59 PM IST | New York

جرنل نیچر میڈیسن کےمطابق دولتمند ممالک ویکسین دوسرے ممالک کو دینے پر توجہ دیتے تو اموات کم ہوتیں اور کورونا کی نئی قسمیں بھی وجود میں نہ آتیں

WHO has tweeted this photo of the vaccination fund.
ٹیکہ کاری کی مالی کی یہ تصویر ڈبلیو ایچ او نے ٹویٹ کی ہے ۔

 ایک رپورٹ کے مطابق دولتمند ممالک کی  بے حسی  کے سبب کورونا سے ۱۰؍ لا کھ افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ  جب ان ممالک کو  ویکسین ضرورت نہیں تھی ،تب بھی یہ ویکسین  کا ذخیرہ کئے ہوئے تھےجبکہ اس وقت کچھ ممالک کو ویکسین کی شدید ضرورت تھی ،  اس کے باوجود ان ممالک نے ضرورتمند ممالک کی مدد نہیں کی ، حالانکہ ان کے ہاں  بعد میں ویکسین ضائع ہوگئیں۔  میڈیارپورٹس کے مطابق معروف طبی ماہنامے’ جرنل نیچر میڈیسن‘ میں شائع ہونے والی ایک  رپورٹ میں کہا گیا  کہ کورونا ویکسین کے سلسلے میں کچھ ممالک نے انسانی زندگی سے زیادہ اپنے مفادات کو  اہمیت دی جس کے نتیجے میں پوری دنیا میں ۱۰؍ لاکھ سے زیادہ افراد لقمۂ اجل بن گئے۔مذکورہ رپورٹ کے مطابق کورونا وبا کے دور میں پوری دنیا میں ۱۰؍لاکھ سے زیادہ افراد کی موت دولتمند ممالک کی صرف ویکسین کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے ہوئی ہے جبکہ دولت مند ممالک نے  بعد میں بچ جانے والی ویکسین کو ضائع کردیا یا پھر ان  کے استعمال کی  تاریخ ختم ہوگئی تھی۔
 جرنل نیچر میڈیسن کی تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیا  کہ اگر دولت مند ممالک ویکسین دوسرے ممالک کو دینے پر توجہ دیتے تو کورونا اموات میں کمی ہوسکتی تھی اور کورونا کی نئی قسمیں  بھی  وجود میں  نہیں  آتیں۔   ۱۵۲؍ ممالک کے اعداد و شمار کے مطالعہ کی بنیاد پر تیار کردہ رپورٹ کے مطابق اگر ویکسین کی ذخیرہ اندوزی نہیں کی جاتی اور ویکسین منصفانہ طور پر تقسیم کی جاتی تو ۱۰؍ لاکھ سے زیادہ انسانوں کی جان بچ سکتی تھی ۔ اس طرح کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں اموات کی شرح بھی کم ہوتی۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا  کہ زیادہ آمدنی والے ممالک میں ٹیکہ کاری کی شرح ۷۵ ؍فیصد تھی لیکن کچھ کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح ۲ ؍فیصد سے بھی کم تھی۔جرنل نیچر میڈیسن کی اسٹڈی رپورٹ کے مطابق اب بھی  بہت سے غریب ممالک میں کورونا وائرس سے موت کا خطرہ بہت زیادہ ہے لیکن  وہ کورونا ویکسین کی قلت کا سامنا کررہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK