Inquilab Logo

یوپی میں ٹیچر کی پٹائی سے دلت طالب علم کی موت کے بعد کشیدگی

Updated: September 28, 2022, 1:18 PM IST | Agency | Auraiya

عوام میں شدید برہمی، مشتعل افراد نے پولیس کی گاڑیوں کو آگ کے حوالے کردیا،بازار بند، ۱۰؍ گھنٹے کے احتجاج کے بعد بچے کی آخری رسومات اداکی گئیں، مہلوک کے والد پر بھی ایف آئی آر درج، سماجوادی پارٹی نے ریاست میں ذات پات کی تفریق کیلئے یوگی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا، مایاوتی نے بھی انصاف کا مطالبہ کیا

 Officials of the police and district administration meeting the local people and the families of the deceased.Picture:INN
مقامی افراد اور مہلوک کے اہل خانہ سے ملاقات کرتے ہوئے پولیس اور ضلع انتظامیہ کے افسران۔ تصویر:آئی این این

 اتر پردیش کے اوریا ضلع میں ایک اسکول ٹیچر کی پٹائی سے ایک دلت طالب علم کی موت نے گزشتہ۲۴؍ گھنٹوں سے پھیلی بدامنی اور کشیدگی کی وجہ سے ضلع انتظامیہ کیلئے کافی پریشانیاں پیدا کردی  ہیں۔   اس کی وجہ سے یہاں اچھلدا تھانہ علاقے میں بھیم آرمی کے کارکنوں نے پیر کی دیر رات تک گاؤں میں زبردست احتجاج کیا۔ یہ لوگ۱۵؍ سالہ مہلوک طالب علم نکھل کمار دُہرے کی آخری رسومات اس وقت تک سڑک پر نہیں ہونے دینے کے اصرار پر بضد  رہے جب تک کہ ملزم ٹیچر وشونی سنگھ کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ مشتعل ہجوم کے ہنگامے کے بعد اعلیٰ پولیس افسران کو پوری رات گشت کرنے کے بعد امن و امان برقرار رکھنے کیلئے منگل کو مقامی بازار کو بند کرنے کا حکم دینا پڑا۔  اطلاعات کے مطابق علاقے میں پھیلی کشیدگی اور بھیم آرمی کے کارکنوں کی موجودگی سے بدامنی کے امکانات کو دیکھتے ہوئے پولیس نے مقامی بازار کو فی الحال بند رکھنے کو کہا ہے۔  خیال ر ہے کہ۷؍ستمبر کو آدرش انٹر کالج سوشل سائنسز کے ترجمان اشونی سنگھ نے۱۰؍ویں جماعت کے طالب علم نکھل  کمار کو مارا پیٹا، جس سے پیر کی صبح اس کی موت ہو گئی۔ اس سے مشتعل گاؤں والوں کے ہنگامے سے علاقے میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ بھیم آرمی کے کارکنوں کی موجودگی میں ہونے والے مظاہروں کے درمیان مقامی لوگوں نے ملزم  ٹیچر کو اب تک گرفتار نہیں کئے جانے کا حوالہ دیکر طالب علم کی لاش کی آخری رسومات ادا کرنے سے  انکار کر دیا ہے ۔ اچھلدا میں صبح جب دکانیں کھلیں تو پولیس نے احتیاط کے طور پر بازار کو بند کرا دیا ۔ علاقے میں ہر جگہ پولیس تعینات تھی۔ قابل ذکر ہے کہ ٹیسٹ میں صرف ایک لفظ غلط لکھنے پر ملزم ٹیچر نے طالب علم کو اس قدر مارا کہ اس کی موت ہوگئی۔ پولیس نے اس معاملے میں معاملہ درج کر لیا ہے لیکن اب تک ملزم ٹیچر فرار ہے۔ دریں اثناء درج فہرست ذات کے ایک طالب علم کی موت سے ناراض گاؤں والوں نے کل دیر شام سڑک جام کر دی اور پولیس کی گاڑی کو آگ لگا دی۔  اچھلدا میں مشتعل لوگوں نے پولیس اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی شروع کردی۔ بھیم آرمی کے کارکنوں نے لاش اسکول کے سامنے رکھ کر مظاہرہ کیا۔ اس کی اطلاع ملتے ہی ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اور ودھونا کے سب کلکٹر سمیت پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔مشتعل مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں پر پتھراؤ کیا اور ایک گاڑی کو بھی آگ لگا دی۔ پولیس کے مطابق ٹیچر کے خلاف ایک دن قبل ہی حملہ اور دلت ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوچکا ہے۔ موت کی خبر کے بعد اسکول بند کر دیا گیا اور ٹیچر فرار ہو گیا۔  پُرتشدد احتجاج کے حوالے سے ضلع انتظامیہ نےکارروائی کرتے ہوئے منگل کو مہلوک کے والد کے ساتھ ہی بی ایس پی  کے ایک ضلعی لیڈر پریہ گوتم سمیت ۳۵؍ افراد کے خلاف نامزد اور۲۵۰؍ نامعلوم افراد کے خلاف تشدد اورآگ زنی کا معاملہ درج کرلیا ہے۔ ان سبھی کے خلاف آئی پی سی کی۱۲؍سنگین دفعات میں معاملہ درج کیا گیا ہے۔  اب رفتہ رفتہ یہ معاملہ سیاسی رنگ بھی لینے لگا ہے۔ ریاست کی اہم اپوزیشن جماعت سماج وادی پارٹی نے طالب علم کی موت کو ذات پات کی تفریق کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اس کیلئے یوگی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔سماجوادی پارٹی نے ریاستی حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ’’  اوریا میں ایک دلت طالب علم کو یوگی جی کے ذات سے تعلق رکھنے والے ا ور بی جے پی تحفظ یافتہ ٹیچر نے ذاتی تفریق کے جذبے کے تحت پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔ اس معاملے کو ۱۸؍دن ہوگئے اور اس درمیان  ریاستی حکومت نے اسے فرار ہونے کا پورا پورا موقع فراہم کیا۔‘‘  سماجوادی پارٹی نے ملزم ٹیچر کی فوری گرفتاری کے ساتھ ہی  مہلوک  طالب علم کے اہل خانہ کو ۵۰؍لاکھ کا معاوضہ دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ ٹیچر کی مار سے  زخمی ہونے والے  طالب علم کو سیفئی میڈیکل کالج میں داخل کرایاگیا تھا جہاں ۱۸؍ دنوں تک زیر علاج رہنے کے بعد اس کی موت ہوگئی۔ اس کی وجہ سے مقامی سطح پر عوام میں کافی ناراضگی پائی جارہی ہے۔  اس معاملے پربی ایس پی نے بھی آواز بلند کی ہے۔ پارٹی  سپریمو مایاوتی نے کہا کہ حکومت کو ایساسنگین معاملہ رفع دفع کرنے کے بجائے فوری اثرکے تحت کارروائی کرنی چاہئے۔ اترپردیش کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے اس معاملے پر ٹویٹ کر کے کہا کہ’’اوریا میں ٹیچر کی پٹائی سے دلت طالب علم کی موت پر سرکاری عدم توجہی اور لاپروائی کا معاملہ کافی طول پکڑتا جارہا ہے۔ انصاف اور مناسب کارروائی کی کمی میں لوگ کافی مشتعل ہیں۔ بی ایس پی کا مطالبہ ہے کہ حکومت ایسے سنگین معاملات کو رفع دفع کرنے کے بجائے فوری کارروائی کو یقینی بنائے۔‘‘ مایاوتی نے ریاست میں سیکورٹی کا مسئلہ اٹھاتے ہوئےکہا کہ’’یوپی میں دلتوں، غریبوں، مظلوموں اور اقلیتوں وغیرہ کے ساتھ ہی خواتین کی سیکوریٹی کا معاملہ بھی کافی سرخیوں میں ہے۔ خواتین پولیس اہلکار کے خلاف تھانہ میں استحصال و ناانصافی کی خبریں بھی لگاتار سرخیوں میں ہیں۔ جو حکومت کے نظم ونسق کے دعویٰ کی قلعی کھولتا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK