Inquilab Logo

میانمار سے آنے والے پناہ گزینوں کو واپس نہیں بھیجاجارہا ہے: تھائی لینڈ کی وضاحت

Updated: April 01, 2021, 2:56 PM IST | Agency | Washington

وزیراعظم پرایوت چن اوچا کے مطابق پناہ گزینوں سے صرف یہ پوچھا جا رہا ہے کہ انہیں اپنے علاقوں میں کیا مسئلہ ہے؟ اگر کوئی مسئلہ نہیں ہے تو وہ واپس چلے جائیں

Members of Myanmar`s Karen community displaced by the bombing.Picture:Agency
بمباری کے سبب بے گھر ہوچکے میانمار کے کارین سماج کے افراد۔ تصویر: ایجنسی

 تھائی لینڈ کے وزیر اعظم نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ میانمار میں فضائی حملوں سے  بچ کر بھاگنے والے  دیہاتیوں کو تھائی لینڈ سے زبردستی واپس بھیج دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود اپنی مرضی سے واپس گئے ہیں۔ اطلاع کے مطابق، وزیر اعظم پرایوت چن اوچا کا کہنا تھا کہ تھائی لینڈ لڑائی سے فرار ہو کر آنے والے کسی بھی شخص کو پناہ دینے کیلئے تیار ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ان کا ملک دہائیوں سے کرتا چلا آیا ہے۔تھائی لینڈ کے وزیر اعظم کے اس بیان سے ایک روز قبل، میانمار کے پناہ گزینوں کو مدد فراہم کرنے والی تنظیموں کا کہنا تھا کہ تھائی لینڈ اُن ہزاروں افراد کو واپس بھیج رہا ہے جو میانمار کی فوج کے فضائی حملوں سے بچ کر  تھائی لینڈ پہنچے تھے۔
 تھائی لینڈ کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ’’ ہم نے سرحد پار کر کے آنے والوں سے یہ ضرور پوچھا ہے کہ کیا انہیں اپنے علاقے میں کوئی مسئلہ ہے؟ جب انہوں نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے تو ہم نے اُن سے صرف یہ کہا کہ وہ پہلے اپنے علاقے میں واپس چلے جائیں۔‘‘ اوچا کہتے ہیں کہ ’’ہم نے صرف کہا تھا، زور زبردستی نہیں کی تھی۔‘‘اوچا کا کہنا تھا کہ ہم کبھی انہیں واپس نہیں بھجیں گے۔ اگر وہاں لڑائی جاری ہے، ہم کیوں ایسا کریں گے۔ لیکن اگر اس وقت وہاں لڑائی جاری نہیں ہے، تو کیا انہیں واپس نہیں جانا چاہئے؟‘‘
 میانمار سے متصل تھائی لینڈ کے صوبے مائی ہونگ سون میں اس وقت تین ہزار کے قریب برمی باشندوں نے پناہ حاصل کی ہے۔ صوبے کے گورنر کا کہنا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ تھائی لینڈ کے علاقے میں موجود مہاجرین ایک آدھ دن میں واپس اپنے ملک چلے جائیں گے۔کارین نسل کے لوگوں کے ساتھ کام کرنے والی متعدد امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اتوار کو ڈھائی سے تین ہزار افراد سرحد عبور کر کے تھائی لینڈ داخل میں ہوئے تھے۔ پیر کو تھائی فوجیوں نے لوگوں کو مجبور کرنا شروع کر دیا  کہ وہ واپس میانمار چلے جائیں۔کارین کی سماجی تنظیموں کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو کہا جا رہا ہے کہ واپس جانا محفوظ ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ پناہ گزیں واپس جانے میں خوف محسوس کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔تھائی لینڈ نے اس علاقے تک جہاں سے پناہ گزیں سرحد عبور کر رہے ہیں، صحافیوں کی رسائی محدود کر دی ہے۔پچھلے ہفتے کے اواخر میں میانمار کی فوج  نے سرحدی علاقوں پر فضائی حملے کئے تھے جس کی وجہ سے کارین نسل کے افراد فرار ہو کر تھائی لینڈ پہنچ گئے۔ 
  امریکہ نے میانمار سے اپنا اسٹاف واپس بلایا
  ادھر امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے  میانمار سے غیر ضروری سفارتی عملے کو انخلا کا حکم دیا ہے۔ واشنگٹن سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ میانمار کی فوج نے منتخب حکومت کے حکام کو ان کے عہدوں سے برطرف کر کے حراست میں لیا ہے۔ ایسی صورت میں فوج کے خلاف مظاہرے جاری رہیں گے۔محکمۂ خارجہ نے فروری کے وسط میں سفارتی عملے میں ہنگامی فرائض انجام دینے والوں کے علاوہ دیگر اہلکاروں کو ان کے خاندانوں سمیت رضاکارانہ طور پر میانمار چھوڑنے کی اجازت دی تھی۔ اب محکمۂ خارجہ نے بگڑتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر اس اجازت نامے کو حکم نامے میں تبدیل کر دیا ہے۔محکمۂ خارجہ کے  ترجمان کے مطابق میانمار سے غیر ضروری اسٹاف کی روانگی کا حکم اس لئے دیا گیا ہےکہ حکام اور شہریوں کے علاوہ ان کے خاندانوں کی حفاظت کو ممکن بنایا جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK