اقوام متحدہ کے مطابق میانمار میں تشدد کی نئی لہر نے ڈیڑھ لاکھ روہنگیا کو بنگلہ دیش فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا، یہ گزشتہ کئی سالوں میں پڑوسی ملک کی جانب روہنگیاؤں کا سب سے بڑا انخلا ہے۔
EPAPER
Updated: July 13, 2025, 3:05 PM IST | Dhaka
اقوام متحدہ کے مطابق میانمار میں تشدد کی نئی لہر نے ڈیڑھ لاکھ روہنگیا کو بنگلہ دیش فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا، یہ گزشتہ کئی سالوں میں پڑوسی ملک کی جانب روہنگیاؤں کا سب سے بڑا انخلا ہے۔
اقوام متحدہ نے جمعہ کے روز کہا کہ میانمار کی راخائن ریاست میں تشدد میں اضافہ اورنشانہ بنا کر کیے جانے والے مظالم نے گزشتہ ۱۸؍ماہ میں تقریباً *ڈیڑھ لاکھ روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیش فرار پر مجبور کر دیا ہے۔ – یہ گزشتہ کئی سالوں میں پڑوسی ملک کی جانب روہنگیاؤں کا سب سے بڑا انخلا ہے۔جیسے جیسے میانمار میں مسلح جھڑپیں شدت اختیار کر رہی ہیں اور حالات خراب ہو رہے ہیں، ہزاروں افراد سرحد پار کر کے کوکس بازار کے انتہائی بھڑ بھاڑ والے کیمپوں میں پناہ لے رہے ہیں، جہاں پہلے ہی تقریباً دس لاکھ روہنگیا مہاجر انتہائی گنجان آباد کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی مہاجرین کی ایجنسی (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان بابر بلوچ نے جنیوا میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا، ’’یہ۲۰۱۷ء کے بعد سے بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی آمد کا سب سے بڑا سلسلہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: مشرقی ایشیائی ممالک نے فلسطین کی بحالی، تعمیر نو کی کوششوں پر مبنی ایکشن پلان اپنایا
یو این ایچ سی آر فوری انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مقامی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔‘‘بلوچ نے کہا،’’جیسے جیسے میانمار میں خانہ جنگی بلا رکاوٹ جاری ہے، ہم بنگلہ دیشی حکام کے ساتھ اس بات کی وکالت کر رہے ہیں کہ تنازع سے فرار ہونے والے شہریوں کو منظم طریقے سے حفاظت اور پناہ گزین کیمپوں تک رسائی فراہم کی جائے۔‘‘
واضح رہے کہ میانمار میں زیادہ تر آبادی بدھ مذہب کی پیروکار ہے۔ جبکہ بنگلہ دیش طویل عرصے سے میانمار میں رہنے والی روہنگیا مسلمان اقلیتی برادری کو پناہ دیتا رہا ہے۔بنگلہ دیش اس وقت مہاجر کیمپوں میں تقریباً دس لاکھ افراد کو پناہ دے رہا ہے، اور حالیہ آنے والے مہاجرین – جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے – وسائل پر مزید دباؤ ڈال رہے ہیں۔ بہت سے لوگ مقامی یکجہتی پر بھروسہ کر رہے ہیں اور کیمپوں میں پہلے سے موجود افراد کے ساتھ محدود وسائل بانٹ رہے ہیں۔جون کے آخر تک، تقریباً ایک لاکھ اکیس ہزار نئے آنے والے مہاجرین کا بائیو میٹرک اندراج کیا جا چکا تھا، حالانکہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ افراد غیر رسمی طور پر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ مناسب پناہ گاہوں تک رسائی ایک بڑا تشویشناک مسئلہ ہے کیونکہ سہولیات نئی آبادی کو سمیٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ نے مغربی کنارے پرعیسائی قصبے پریہودی آبادکاروں کے حملوں کی مذمت کی
بلوچ نے کہا، ’’یہ نئے آنے والے مزید مہاجرین تقریباً دس لاکھ روہنگیا مہاجرین کے ساتھ صرف۲۴؍ مربع کلومیٹر کے رقبے میں بسے ہوئے ہیں۔ فوری طور پر مزید انسان دوست امداد کی ضرورت ہے۔‘‘اِمدادی شراکت داروں نے خوراک، طبی امداد، تعلیم اور ضروری راحت بخش سامان سمیت بنیادی خدمات فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ تاہم، امداد کی کمی کی وجہ سے یہکارروائی اب سنگین خطرے سے دوچار ہے۔یو این ایچ سی آر نے خبردار کیا کہ۲۰۲۴ء کی۲۵۵؍ ملین ڈالر کی انسان دوست امداد کی اپیل کے لیے اب تک صرف۳۵؍ فیصد رقم ہی فراہم ہو سکی ہے۔اگر فوری مالی امداد نہ ملی تو پورے امدادی نظام کے بند ہو جانے کا خطرہ ہے۔