لوک سبھا میں سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے حکومت سے سخت سوال پوچھے ، گودی میڈیا اور حکومت کے بیانیے کو نشانہ بنایا
EPAPER
Updated: August 02, 2025, 12:27 PM IST | New Delhi
لوک سبھا میں سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے حکومت سے سخت سوال پوچھے ، گودی میڈیا اور حکومت کے بیانیے کو نشانہ بنایا
میں آج اس ایوان میں اس امید کے ساتھ کھڑا ہوں کہ شاید اس بار حکومت جواب دے گی۔ شاید ان سوالات کا کوئی جواب مل جائے جو صرف حزب اختلاف ہی نہیں بلکہ ملک کا ہر شہری پوچھ رہا ہے۔جب پہلگام کا واقعہ ہوا، جب ہمارے بے گناہ مارے گئے، جب سرحد پر ہمارے جوان شہید ہوئے، تب ایک امید تھی کہ اب شاید حکومت کچھ سخت قدم اٹھائے گی۔ جب آپریشن سیندور شروع ہوا تو دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کے تمام ٹریننگ کیمپ تباہ کر د ئیے گئے، ہم ان کے ایئربیس تک پہنچ گئے۔ ہمیں لگا کہ اب شاید ہمیشہ کے لیے پاکستان کو سبق سکھا دیا جائے گا۔ہم نے بڑے بڑے ٹی وی چینلز پر دیکھا، تبصرے سنے، اینکرز چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ’’کراچی ہمارا ہو گیا‘‘، ’’لاہور ہم لے چکے ہیں‘‘۔ ہمیں لگا جیسے پی او کے بھی ہمارا ہو جائے گا لیکن ہوا کیا؟ آخر کس دباؤ میں آکر حکومت کو سیزفائر کا اعلان کرنا پڑا؟ اور وہ بھی خود نہ کر کے اپنے ’’دوست ملک‘‘سے کروایا گیا؟ یہ سیزفائر کس کی مرضی سے ہوا؟ یہ ہماری جیت تھی یا سفارتی شکست؟ اس کا جواب حکومت کو دینا ہی ہو گا۔
صدر محترم! یہ صرف حزبِ اختلاف کا سوال نہیں، یہ ہر اُس بھارتیہ کا سوال ہے جو اپنی فوج پر فخر کرتا ہے، جو سرحد کی حفاظت کے لیے اپنا بیٹا بھیجتا ہے۔ پہلگام کا واقعہ، ایک کھلی ناکامی تھی — ہماری انٹیلی جنس کی ناکامی۔جو لوگ وہاں گئے تھے، وہ حکومت کے وعدے پر گئے تھے۔ کہا گیا تھا کہ دفعہ۳۷۰؍ ہٹنے کے بعد سب کچھ بہتر ہو گیا ہے، دہشت گردی ختم ہو گئی ہےاور سیاحت بڑھ رہی ہے۔ لیکن ہوا کیا؟ پہلگام میں مارے گئے لوگ کس کی ذمہ داری تھے؟ وہاں حفاظت کے لیے کوئی موجود کیوں نہیں تھا؟اور پھر، جب کوئی فوجی شہید ہوتا ہے، تو اس کی بیوہ اگر امن کی بات کرے، تو اسے گالیاں دی جاتی ہیں؟ بی جے پی کے آفیشل سوشل میڈیا ہینڈل سے کارٹون جاری کئے جاتے ہیں؟ یہ کیسا مذاق ہے ملک کے شہیدوں کے ساتھ؟ کیا ان کے آنسو بھی اب سیاسی ہتھیار بن چکے ہیں؟
پہلگام کا واقعہ پہلا نہیں ہے۔ اس سے پہلے پلوامہ بھی ہوا تھا۔ تب بھی یہی کہا گیا — انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔ آج تک ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ پلوامہ میں جو گاڑی آر ڈی ایکس سے بھری ہوئی آئی تھی، وہ کہاں سے آئی؟ سیٹیلائٹ امیجنگ کے دور میں آج تک وہ گاڑی کہاں سے آئی، کیسے آئی، اس کا کوئی پتہ نہیں چلا؟ یا پھر معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی؟
بقیہ : اکھلیش یادو کی تقریر
ہم نے سنا کہ ’’آپریشن سیندور‘‘ کے نام پر بڑی تشہیر ہوئی لیکن سوال یہ ہے کہ یہ آپریشن کرنا ہی کیوں پڑا؟ اگر سب کچھ ٹھیک تھا، تو یہ آپریشن کیوں ہوا؟ کیا یہ آپریشن حکومت کی ناکامی کا اعلان نہیں ہے؟ سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہمارے ساتھ نہیں کھڑا ہوا۔ کوئی ایک بیان تک نہیں آیا ہمارے حق میں۔ کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں ہے؟ جب ہم وشو گرو بننے کی بات کرتے ہیں، تب ہمیں یہ بھی سوچنا چا ہئے کہ آج دنیا ہمیں سننا بھی نہیں چاہتی۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہمیں چین سے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ وہ صرف ہماری زمین پر قبضہ نہیں کر رہا، وہ ہمارے بازار پر بھی قبضہ کر رہا ہے۔ آتمنربھرتا کا نعرہ دے کر ہم خوش ہیں جبکہ مینوفیکچرنگ کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ روزگار ختم ہو رہا ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے اور غریب کچلا جا رہا ہے۔ہماری سرحدیں آج بھی محفوظ نہیں ہیں۔ گلوان سے پہلے کی جو پوزیشن تھی کیا ہم وہاں تک واپس پہنچ پائے ہیں؟ کئی بفر زونز ہماری گشت سے باہر ہیں۔ فوج کو مسلسل کم نفری کا سامنا ہے اور آپ اگنی ویر اسکیم لے آتے ہیں؟ کیا اس سے ہماری فوج مضبوط ہو گی؟ کیا یہی ہے تیاری چین سے لڑنے کی؟اور جب ہم بات کرتے ہیں خود کفالت کی تو چین نایاب معدنیات کی سپلائی روک دیتا ہے، بلٹ ٹرین پروجیکٹس میں دقتیں آتی ہیں، بڑی کمپنیاں دباؤ میں آ جاتی ہیں۔ کیا یہ سب خود کفالت ہے؟ یا ہم صرف نعروں میں خود کفیل ہیں؟سنا ہے کچھ مہینوں بعد بیجنگ میں ایک بڑی میٹنگ ہونے والی ہے، جس میں ہمارے وزرا ءاور افسران بھی شریک ہوں گے۔ کیا ہم جانے انجانے میں اپنی کمزوری دنیا کے سامنے ظاہر کرنے جا رہے ہیں؟ ہمیں ہوشیار رہنا ہو گا۔ پاکستان اگر خطرہ ہے تو چین خطرے کا دیو ہے — جو نہ صرف ہماری زمین بلکہ ہماری معیشت بھی نگل رہا ہے۔اور آخر میں میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنی دفاعی پالیسی پر بھی نظرثانی کرنی چاہیے۔ دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا کم از کم ۳؍ فیصد ہونا چاہئے، ٹیکنالوجی ٹرانسفر کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں، انہیں ہٹانا ہو گاجہاں تک سوال ہے فضائی حملوں کا — تو وہ طیارے جن پر لیموں اور مرچ لگا کر پوجا کی گئی، وہ کتنی بار اڑے؟ ہمیں اپنی ایئر فورس پر پورا فخر ہے، ہمارے پائلٹس دنیا کے بہترین ہیں لیکن سیاسی تشہیر کیلئے ان کے جذبے کا مذاق نہ بنایا جائے۔صدر محترم! ہمیں جنگ نہیں چا ہئے، ہم سماج وادی لوگ نہیں لیکن ہم بزدل بھی نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سرحدیں محفوظ رہیں، ہمارے جوانوں کی جان نہ جائے، ہمارے سیاح اعتماد سے پہلگام جا سکیں اور ہماری حکومت دشمن کو دوٹوک جواب دے — نہ کہ سیزفائر کی اپیلیں کسی اور سے کروائے۔