• Tue, 23 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ریاست کے بیشتر ویٹ لینڈز کی صورت حال تشویشناک

Updated: September 22, 2025, 4:41 PM IST | Agency | Mumbai

۲۳؍ ہزار میں سے صرف۱۸؍ویٹ لینڈز کو ’ہیلتھ کارڈ‘ جاری۔مرکزی حکومت کے انڈین ویٹ لینڈز پورٹل کے تازہ ترین اعداد و شمار میں انکشاف۔

Wetlands are important for flood protection, water retention, carbon storage and biodiversity. Photo: Setij Shinde
ویٹ لینڈز سیلاب سے بچاؤ، پانی کے ذخیرےکی بحالی، کاربن کے ذخائر اور حیاتیاتی تنوع کے مراکز کے طور پر اہم ہیں۔ تصویر:ستیج شندے

مہاراشٹر میں ویٹ لینڈ علاقوں کی صورتحال تشویشناک ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق ریاست کے۲۳؍ ہزار سے زیادہ آبی علاقوں میں سے صرف۱۸؍کو ہیلتھ کارڈ جاری کئے گئے ہیں جو پورے ملک کے مقابلے میں انتہائی کمزور کارکردگی ہے۔ مرکزی وزارت ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی (ایم او ای ایف سی سی) کے انڈین ویٹ لینڈز پورٹل کے تازہ ترین اعداد و شمار نے اس تشویشناک صورتحال کو اجاگر کیا ہے۔
 ملک گیر اعداد و شمار کے مطابق مدھیہ پردیش۹۴؍ہیلتھ کارڈز کے ساتھ سرفہرست ہے۔ ادیشہ ۷۷، بہار اور تمل ناڈو ۷۱ ، اتر پردیش۵۸، دہلی این سی آر ۵۶؍اور جھارکھنڈ۴۳؍ہیلتھ کارڈز کے ساتھ نمایاں ہیں۔ قومی سطح پر ۲۰۱۰ء میں آئی ایس آر او کی نیشنل ویٹ لینڈ انوینٹری اٹلس کے تحت شناخت کئے گئے۲؍لاکھ سے زائد آبی ذخائر میں سے صرف۶۸۴؍کو عوامی ہیلتھ کارڈ فراہم کئے گئے ہیں۔
 ماحولیاتی نگراں نیٹ کنیکٹ فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بی این کمار نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ہندوستان میں گیلے علاقوں کے تحفظ کی ابتر صورتِ حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وزیراعظم نریندر مودی نے ان ذخائر کو ’امرت دھروہار‘ یعنی قیمتی ورثہ قرار دیا ہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ہیلتھ کارڈ میں ہائیڈرولوجی، بایو ڈائیورسٹی، کیچمنٹ اور گورننس کے نقشے اور مینجمنٹ پلان جیسے پہلو شامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ ویٹ لینڈز قدرتی طور پر سیلاب سے بچاؤ، زمینی پانی کے ذخائر کی بحالی، کاربن کے ذخائر اور حیاتیاتی تنوع کے مراکز کے طور پر اہم ہیں لیکن شہری منصوبہ بندی میں انہیں اکثر بنجر زمین سمجھا جاتا ہے۔
 ایم او ای ایف سی سی کے پورٹل پر محض ایک ہزار ۳۰۹؍ گیلے علاقے درج ہیں جبکہ نیشنل ویٹ لینڈ اٹلس میں ۲؍ لاکھ سے زیادہ آبی ذخائر شامل ہیں۔ ان میں۹۱؍ رامسر سائٹس بھی ہیں جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔ بی این کمار نے کہا کہ حکومت رامسر سائٹس پر تو زور دیتی ہے لیکن دیگر گیلے علاقوں کو نظرانداز کر دیتی ہے۔
 مہاراشٹر میں یہ کمی اس لئے بھی ہے کہ نیشنل سینٹر فار سسٹین ایبل کوسٹل مینجمنٹ (این سی ایس سی ایم) نے آبی ذخائر کی زمینی تصدیق کا عمل ابھی مکمل نہیں کیا ہے۔ اس عمل کے بغیر کسی ویٹ لینڈ کو باضابطہ تحفظ حاصل نہیں ہو سکتا۔ آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل معلومات سے پتہ چلا ہے کہ یہ عمل ابھی جاری ہے۔
 ماہرین نے ریاستی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر تمام بڑے آبی ذخائر کی تصدیق اور نوٹیفکیشن کرے تاکہ پانی کے تحفظ، حیاتیاتی تنوع اور موسمیاتی لچک جیسے فوائد کو محفوظ بنایا جا سکے۔ ماحولیاتی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو مہاراشٹر کے آبی علاقے اور ان کی لازمی خدمات ناقابلِ تلافی نقصان کا شکار ہو جائیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK