Updated: December 11, 2025, 1:49 PM IST
| New Delhi
ایم آئی ایم سربراہ اسد الدین اویسی نے نہایت مدلل انداز میں وندے ماترم پر بحث میں حصہ لیا،مودی حکومت کی کئی غلط بیانیوں کی نشاندہی کی اور کئی معاملات میں تنقید بھی کی
ایم آئی ایم کے رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی۔ (پی ٹی آئی )
بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت کی بڑی دھوم دھام سے (وندے ماترم پر)یہ مباحثہ ہورہا ہے مگر ایوان میں ۳۰؍سے زیادہ ممبرانِ پارلیمنٹ موجود نہیں ہیں۔سب سے پہلے میں وزیراعظم کو جناح کے بارے میںکچھ بتانا چاہوں گا۔ ہم تو جناح کے سخت مخالف ہیں اس لئے ہم ہندوستان کو اپنا وطن مانتے ہیں لیکن۱۹۴۲ءمیں آپ کے پیارے ویر (ساورکر) اور جناح کی پارٹی نے نارتھ ویسٹ فرنٹیر، سندھ اور بنگال میں مل کر حکومت چلائی اور اس حکومت نے ڈیڑھ لاکھ ہندو اور مسلمانوں کو انگریزوں کی فوج میں بھرتی کرایا تھا تاکہ وہ لڑیں۔ اس لئے کسی شاعر نے وزیراعظم کے بارے میں کیا خوب کہا ہے:
فریب دے کے زمانے کو پارسا نہ بنیں
انہیں کہو کہ وہ بندہ بنیں خدا نہ بنیں
امیر شہر یہی چاہتا ہے یا حضرت
ہماری چیخ گلے میں رہے، صدا نہ بنے
دوسری بات، ہمارے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بہت عجیب وغریب اور تکلیف دہ بات کہی اُمّ المؤمنین اور اُمّ الکتاب کے بارے میں۔ میں یہاں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اُمّ المؤمنین انہیں کہتے ہیں جو ہمارے نبیؐ کی ازواج ہیں، ہم انہیں تمام مسلمانوں کی ماں تصور کرتے ہیں مگر ہم ان کی عبادت نہیں کرتے۔ ہم اپنی ماں کی عبادت نہیں کرتے۔ اُمّ الکتاب قرآن ہے مگر ہم قرآن کی بھی عبادت نہیں کرتے، قرآن اللہ کا دیا ہوا کلام ہے۔ اس سلسلے میں کسی شاعر نے خوب کہا ہے کہ :
خبر نہیں ہے جنہیں اپنے دین و مذہب کی
ہمیں وہ دین کا مطلب سکھانے نکلے ہیں
اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے آئین کا آغاز لفظ ’’ہم ہندوستان کے لوگ‘‘ سے ہوتا ہے۔ اس کا آغاز ’بھارت ماتا‘ کے نام سے نہیں ہوتا۔ آئین کا دیباچہ ’’سوچ، اظہار، عقیدہ، ایمان اور عبادت کی آزادی‘‘ کی بات کرتا ہے۔آئین کی پہلی سطر یہ کہتی ہے تو پھر کیسے کسی شہری کو کسی خدا، دیوی یا دیوتا کے آگے جھکنے یا عبادت کرنے کیلئے مجبور کیا جاسکتاہے؟ آپ کی پارٹی سے جو باتیں ہو رہی ہیں،اسی پر ہورہی ہیں۔ ہماری آئین ساز اسمبلی میں ایک محترمہ تھیں روہنی کمار چودھری ، انہوں نے تجویز دی تھی کہ دیباچے کی شروعات کسی دیوی کے نام سے ہو، انہوں نے بطورخاص وندے ماترم کا ذکر کیا، مگر اسے قبول نہیں کیا گیا۔ پھر کے وی کامت نے تجویز دی کہ دیباچے کو خدا کے نام سے شروع کیا جائے مگر وہ بھی رد کر دی گئی۔ ہمارے آئین کا اصول ہے کہ ہندوستان دراصل اس کے عوام ہیں۔عوام ہی قانون کےمصنف ہیں، عوام کی مرضی سب سے بالا تر ہے، عوام ہی حاکم ہیں۔ یہ ملک کسی دیوی دیوتا یا مذہبی علامت سے نہیں چلتا نہ ہی یہ ملک کسی ایک مذہب کی ملکیت ہے۔اسی لئے بابا صاحب امبیڈکر نے ’’مدر انڈیا‘‘ کے تصور کو مسترد کیا تھا۔
انہوں نے ایک نیا تصور ’’بہکشت بھارت‘‘ کا دیاتھا۔ اگر مذہبی آزادی اس آئین کا بنیادی اصول ہے تو پھر سوال ہے کہ اس وقت ہماری قانون ساز اسمبلی کے صدر راجندر پرساد نے کس بنیاد پر وندے ماترم کو قومی گیت قرار دیا تھا ؟ اس پر نہ کوئی قرارداد ہے، نہ کوئی قانونی حیثیت۔میں آپ کو بتانا چاہوں گاکہ عدلیہ اس کے بارے میں کیا کہتی ہے؟۱۹۸۶ء کابیجو ایمانیول کیس ہے جس میں جیہوا وِٹنیس نے کہا کہ میں قومی ترانہ کےوقت کھڑی رہوں گی،پڑھوں گی نہیں، سپریم کورٹ نے کہا کہ اس میں کوئی جرم نہیں ہے۔ وہیں ۲۰۱۷ء کا اشوینی اپادھیائے کا کیس ہے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے وندے ماترم پر رہنما خطوط جاری کرنے کی اپیل کی، کورٹ نے انکار کردیا۔
پھر آپ آجایئے ۱۹۷۱ء میں ’پروینشن آف انسلٹ ٹو نیشنل آنر ایکٹ ‘ پر، اس میں بھی صرف نیشنل ایمبلم اور نیشنل اینتھم (ترانہ) کا ذکر ہے، قومی گیت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔اس کے بعد آپ آجائیے ۴۰؍ ویں ترمیم پر، آرٹیکل ۵۱(اے) ۱۹۷۶ء میں پاس ہوا اس میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہندوستانی قوم ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، جین، لا مذہب، محنت کش، کسان، غریب ،مظلوم اور دلت سب پر مشتمل ہے۔ مگر جو تقاریرآج ہم نے یہاں سنیں اور باہر جو سنتے ہیں کہ اگر بھارت کو دیوی بنا کر اس کے آگے سجدہ کرنے پر مجبور کیا جائے تو آپ وطن سے محبت کو مذہب میں تبدیل کررہے ہیں۔ اور پھر یہ کہنا کہ اگر بھارت میں رہنا ہے تو وندے ماترم کہنا پڑے گا، یہ آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ہے۔
اگر وندے ماترم حب الوطنی کا معیار ہے تو پھر حسرت موہانی کی حب الوطنی کیا تھی جس نے ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ دیا؟اگر یوسف مہر علی نے ’’ ہندوستان چھوڑو‘‘ اور ’’سائمن گو بیک‘‘ کا نعرہ دیا تو ان کی قومیت کیا تھی؟ حیدرآباد کی مکہ مسجد کے مولوی علاء الدین جو وہاں سے کالا پانی پر بھیجے جانے والے پہلے شخص تھے تو ان کی قومیت کیا تھی؟ اور طرم بازخان جنہیںقتل کرکے انگریزوں نے لٹکادیاتھا،ان کی قومیت کیا تھی؟ عنایت اللہ کافی جنہوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور ۲؍ دن بعد انہیں پھانسی دیدی گئے تو ان کی قومیت کیا تھی؟ انہیں جب پھانسی پر لٹکانے کیلئے لے جایا جارہاتھا تو وہ ہمارے نبی ؐ کی نعت پڑھ رہے تھے،’’کوئی گل باقی رہےگا،نہ چمن رہ جائےگا=پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا‘‘ تو بتائیے کہ ان کی قومیت کیا تھی۔ مولانا محمود الحسن ، حسین احمد مدنی ۶؍ مہینے مالٹا کی جیل کے میدان میں پڑے رہے،ان کی قومیت کیا تھی؟علامہ فضل حق خیرآبادی کی کالا پانی کی وہ کوٹھری پکار پکار کر پوچھ رہی ہے جو وہیں پر مرگئے،وہیں ان کی قبر ہے، وہ پوچھ رہی ہے کہ بتاؤ میری قومیت کیاتھی؟میں اسلام کو ماننے والا باوقار انسان ہوں،میرے مذہب کی بنیادی تعلیم توحید ہے۔ لا الٰہ الا اللہ، نہیں ہے کوئی خدا سوائے اللہ کے اور قرآن میں اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں کہ تم میری عبادت کرو، مجھے مانو۔اس ملک میں اس کا حق مجھے آئین کے آرٹیکل۲۵؍ سے مل رہا ہے۔ آزادیِ اظہار رائے اور آزادی مذہب سے مل رہا ہے۔ اسے حب الوطنی کے ساتھ نہ جوڑیں یہ بہت ہی خطرناک ہوگا۔ہمارے نبی ؐ جب مدینہ گئے تو انہوں نے اس وطن کیلئے دعا کی کہ’’ اے اللہ مدینے کی محبت ہمارے دل میں اور بڑھا دے۔‘‘ ملک کی محبت ہمارے مسلمان ہونے کے راستے میں نہیں آتی۔ ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے اور ہمیشہ رہے گی کیوں کہ ہماری عظیم قربانیاں شامل ہیں۔ جنہوں نے آزادی کی جنگ میں حصہ نہیں لیا وہ آج ہمیں حب الوطنی کا درس دیں گے تو یہ بڑا غلط ہوگا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے سبھاش چندر بوس کو خط لکھا تھا۔کسی نے اسے نہیں پڑھا۔ٹیگور نے کہاتھا کہ پارلیمنٹ تمام مذاہب کا گھر ہے، اس لیے وہاں ایسا گیت مناسب نہیں ۔آج یہاں کچھ لوگ ہیں جو ’’جن گن من‘‘ پر اعتراض کر رہے ہیں میں نے اس کی وجہ جاننے کی جب کوشش کی تو مجھے ۲۸؍ دسمبر کا آرگنائزر (آر ایس ایس کا ترجمان رسالہ )ملا جس میں جن گن من پر اعتراض کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ اسے سرکاری تقاریب میں بطور تفریح پڑھا جاتا ہے۔ اس میں آگے لکھا جاتا ہے کہ ’’ وندے ماترم جن من گن کے نیچے زندہ دب جائےگا۔‘‘
(اس کے بعداسدالدین اویسی نے آنند مٹھ یعنی وہ ناول جس میں وندے ماترم شامل ہے، کے کچھ باب پڑھ کر سنائے جومسلم دشمنی پر مبنی ہیں۔اس کے بعد انہوں نے کہاکہ ہندوستان میں ہمیں آزادی اس لئے مل پائی اور برقرار رہی کہ ہم نے ملک اور مذہب کو ایک چیز نہیں بنایا۔ہم نے اعلان کیا کہ ملک مختلف مذاہب اور طبقات پر مشتمل ہے۔ یہی ہماری قومیت کا سرچشمہ ہے جو کسی خاص مذہب، زبان یا ثقافت کا نہیں ہے۔اگر وندے ماترم کا متن قوم اور مذہب کو ایک بنا دیتا ہے،اگر ہم اسے ملک سے وفاداری کا پیمانہ بنادیتے ہیں تو پھر جان لیجئے کہ یہ گاندھی، امبیڈکر، ٹیگور،بوس اور آزادی کے لاکھوں سپاہیوں کی سوچ کو چھوڑ کر گوڈسےکی ہندو توااورمتنازع قوم پرست سوچ کو اپنانے کے مترادف ہوگا۔ مجھے اپنے وطن سے محبت ہے اور رہے گی،اس کے باوجود کہ میری مسجد، میری عبادتگاہوں،میرے کاروبار اور میرے گھر پر حملے ہوتے ہیں مگر ہم وطن کو چھوڑ کر نہیں جائیںگے۔ لیکن وطن کی محبت کا مطالبہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ظلم اورغریبی کو ختم کیا جائے، جبر کا خاتمہ کیا جائے، ملک کو امن کا گہوارہ بناؤ، پاکستان کی دہشت گردی کو ختم کرو،ا ستحصال کو روکو۔ یہ ملک ایک چمن ہے جہاں ہر پھول کو کھلنا چاہئے۔