آکسفیم کی رپورٹ میں انکشاف، رپورٹ کے مطابق غریب ترین۵۰؍ فیصد صرف۱۲؍ سے۱۵؍فیصد کماتے ہیں۔
             
            
                                    
                 
                                
                اس تصویر سے بنگلہ دیش کی غربت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این                
             
                         ایشیا میں امیر اور غریب کے درمیان فرق تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں۵۰؍ کروڑ افراد کو شدید معاشی بوجھ کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔ اس سلسلے میں آکسفیم کی رپورٹ دولت کی غیر مساوات، ماحولیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل فرق کی وجہ سے ہونے والی اقتصادی ترقی کے غیر مساوی پیٹرن کو ظاہر کرتی ہے۔ 
رپورٹ کا عنوان’ غیر مساوی مستقبل: ایشیا کی انصاف کیلئے جدوجہد ہے‘ اور یہ رپورٹ ایک مایوس کن حقیقت سامنے لاتی ہے کہ سب سے امیر۱۰؍ فیصد افراد قومی آمدنی کا۶۰؍ سے ۷۷؍ فیصد حاصل کرتے ہیں، جبکہ غریب ترین۵۰؍ فیصد صرف۱۲؍ سے۱۵؍فیصد کماتے ہیں اور سب سے امیر ایک فیصد کے پاس تقریباً آدھی دولت ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی میں ایشیائی ارب پتیوں کی دولت دوگنا ہوچکی ہے جبکہہندوستان، چین،  انڈونیشیا اور کوریا جیسے ممالک میں غریب ترین نصف آبادی کی آمدنی کا حصہ کم ہو گیا ہے۔ 
رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے کہ غریب ترین۵۰؍ فیصد کی آمدنی کا حصہ تقریباً تمام ممالک میں کم ہوا ہے۔ آکسفیم انٹرنیشنل کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر امیتابھ بہار نے کہا کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لئے یہ رپورٹ اہمیت رکھتی ہے۔ انہوں نے ڈان  اخبار کو بتایا کہ پاکستان، ایشیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو سیلاب اور ماحولیاتی اتار چڑھاؤ سے سب سے زیادہ متاثر ہے، پھر بھی سب سے امیر طبقہ دولت اکٹھا کرتا رہتا ہے اور ٹیکسوں سے بچتا ہے جس سے عام لوگ تباہی کا سامنا کرتے ہیں۔ 
آکسفیم کی تحقیق اس دعوے کی حمایت کرتی ہے کہ۲۰۲۲ء میں بھوٹان اور کرغزستان میں تعلیم میں عوامی سرمایہ کاری جی ڈی پی کا۸؍ فیصد تھی، جب کہ پاپوا نیو گنی، پاکستان، کمبوڈیا، لاؤس اور سری لنکا میں یہ جی ڈی پی کا۲؍ فیصد سے بھی کم تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے کہ کیسے غیر مستقیم ٹیکسوں کا اثر کم آمدنی والے خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے؟۲۰۲۲ء میں جاپان، کوریا اور نیوزی لینڈ میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب۳۰؍ فیصد یا اس سے زیادہ تھا، جب کہ لاؤس اور پاکستان میں یہ تقریباً۱۰؍ فیصد تھا۔ 
اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کوریا اور جاپان جیسے ممالک میں براہ راست ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے، متوسط ویلیو ایڈڈ ٹیکسز ہیں اور مضبوط سماجی خرچ کی صلاحیت ہے، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، ملائیشیا، انڈونیشیا، پاکستان، فلپائن، تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک میں غیر مستقیم ٹیکسوں پر انحصار جاری ہے لہٰذا بوجھ اب بھی غریب خاندانوں پر غیر متناسب طور پر پڑتا ہے۔  لیکن صرف اقتصادی اصلاحات سے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی بحران اور ڈیجیٹل فرق کو بھی حل کرنا ضروری ہے، کیونکہ دونوں خطے میں عدم مساوات کو مزید بڑھاتے ہیں۔ 
ایشیا میں یہ فرق سب سے زیادہ نمایاں ہے، جسے عالمی موسمیاتی تنظیم نے سب سے زیادہ آفات کا شکار خطہ قرار دیا ہے اور گزشتہ دہائی میں یہاں ایک ہزار ۸۰۰؍ سے زائد واقعات ہوئے ہیں جن میں ایک لاکھ۵۰؍ ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور۱۲۰؍کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ دنیا کے پانچ سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ممالک بنگلہ دیش، نیپال، میانمار، پاکستان اور سری لنکا ہیں جو۵۰؍کروڑ سے زائد افراد کا گھر ہیں۔ ماحولیاتی آفات کے باعث سب سے زیادہ بوجھ اٹھاتے ہیں۔