Inquilab Logo Happiest Places to Work

سرکاری حکم نامہ خود ظاہر کرتا ہے کہ ’ہندی ‘ کو اختیاری نہیں ’لازمی‘ قرار دیا گیا ہے

Updated: June 28, 2025, 8:35 AM IST | Nadir | Mumbai

حکومت کے نوٹیفکیشن کے مطابق ہندی تیسری لازمی زبان ہوگی ، کوئی اورزبان اسی وقت سکھائی جائے گی جب اسے سیکھنے والوں کی تعداد کلاس میں کم از کم۲۰؍ ہوگی

Education Minister Dada Bhasse is unable to understand how Hindi can be called an `optional` language.
وزیر تعلیم دادا بھسے یہ سمجھا نہیں پا رہے ہیں کہ ہندی کو ’ اختیاری‘ زبان کیسے کہا جائے گا

مہاراشٹر حکومت نے دوسری بار اسکولوں میں ہندی زبان کو لازمی قرار دینے والے حکم نامے کو التواء میں ڈالا ہے۔ اس سے قبل اپریل  میں  ہندی کو اول تا پنجم جماعت  لازمی قرار دیا گیا تھا۔  جب ہر سمت سے مخالفت ہوئی تو حکم نامے کو روک لیا گیا۔ وزیر تعلیم دادا بھسے کا کہنا تھا کہ ہندی کو لازمی زبان کے طور پر نہیں پڑھایا جائے گا بلکہ اسے ’اختیاری زبان‘ کے طور پر نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ لیکن جب جون میں نیا حکم نامہ جاری کیا گیا تو پرانی بات کو نئے طریقے سے دہرایا گیا تھا۔اس حکم نامے میں’ تیسری زبان‘   کو لازمی قرار دیا گیا تھا جو کہ ہندی ہوگی ۔ اگر طلبہ دیگر زبانوں  میں سے کوئی زبان پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں بشرطیکہ اس زبان کو پڑھنے کے خواہشمند طلبہ کی تعداد ایک کلاس میں کم از کم ۲۰؍ ہونی چاہئے۔ 
   یہ بات یاد رہے کہ مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے نئے حکم نامے کے جاری ہونے سے قبل ہی وزیر تعلیم کو ایک خط لکھ کر آگاہ کیا تھا کہ حکومت نے بظاہر ہندی کو لازمی قرار دینے کا حکم واپس لے لیا ہے لیکن پتہ چلاہے کہ ہندی کی کتابیں شائع کروائی گئی ہیں اور نیا حکم نامہ جاری کرنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اگر کسی بھی طرح ’چور دروازے‘ سے ہندی کو مہاراشٹر پر تھوپنے کی کوشش کی گئی تو ان کی پارٹی لازمی طور پر اس کے خلاف احتجاج کرے گی۔اس پر دادا بھسے نے وضاحت کی تھی ہندی کو لازمی نہیں کیا جائے گا بلکہ اختیاری درجہ دیا جائے گا۔ لیکن جب حکم نامہ جاری کیا گیا تو وہی ثابت ہوا جس کا خدشہ راج ٹھاکرے نے ظاہر کیا تھا۔حکومت ہندی کو ’اختیاری‘ قرار دینے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن حکم نامے کے بنیادی ۲؍ جملے ہی اسے ’لازمی‘ قرار دیتے ہیں۔ حکم نامے کے مطابق’’ ریاست کے مراٹھی اور انگریزی اسکولوں میں ہندی بنیادی طور پر ایک تیسری زبان ہوگی۔ اگر طلبہ ہندی کے متبادل کے طور پر کوئی اور زبان پڑھنا چاہتے ہوں تو اس کیلئے لازمی ہوگا کہ ایک کلاس میں ایسے طلبہ کی تعداد کم از کم ۲۰؍  ہو ۔ ایسی صورت میں ان کیلئے اس زبان کے ٹیچر کا تقرر کیا جائے گا یا پھر اس کی آن لائن تعلیم دی جائے گی۔ ‘‘  اس حکم کے بعد ہندی ’اختیاری‘ کہا ں رہ جاتی ہے؟    ’کم از کم ۲۰؍ طلبہ‘ کی شرط ہندی کے ساتھ کیوں نہیں ہے؟ ایک کلاس میں اگر  ۲۰؍ طلبہ ہندی سیکھنا چاہتے ہیں، ۱۰؍ اردو سیکھنا چاہتے ہیں، ۸؍ تمل سیکھنا چاہتے ہیں، ۶؍ بنگالی سیکھنا چاہتے ہیں،  اور ۶؍ تیلگو سیکھنا چاہتے ہیں،  یعنی کلاس میں ۲۰؍ بچے ہندی اور ۳۰؍ بچے غیر ہندی زبان  پڑھنا چاہتے ہیں تو باوجود (ہندی نہ پڑھنے والوں کی) اکثریت کے ان بچوں کو ہندی سیکھنی ہوگی کیونکہ ان کی تعداد ۲۰؍ نہیں ہے ۔ درحقیقت مرکزی حکومت ’ ایک ملک ایک ٹیکس، ایک ملک ایک الیکشن ‘ جیسے فارمولوں کی طرح ’ ایک ملک ایک زبان‘ کا فارمولہ ملک پر نافذ کرنے کی کوشش میں ہے۔  کچھ عرصہ پہلے امیت شاہ نے ہندی کو پورے ملک میں لازمی قرار دینے کی بات کہی تھی تو تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے کہا تھا ’’ امیت شاہ نے شہد کے چھتے کو چھیڑ دیا ہے ‘‘ اس پر امیت شاہ کو اپنا بیان واپس لینا پڑا تھا۔  
  یہ بات یاد رہے کہ ہندوستان کی آزادی کے بعد جب ریاستیں تشکیل دی گئیں تو ان کی بنیاد علاقائی زبانیں تھیں۔ جس علاقے میں جو زبان بولی جاتی تھی ، اس زبان کے بولنے والوں کے اکثریتی علاقے کو ایک ریاست کا درجہ دیدیا گیا۔ اس طرح  زبان  ایک سماج کی شناخت بن گئی۔ ان کیلئے زبان صرف رابطے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ ان کی زمین ، ان کے علاقے اور ان کی ثقافت سے وابستگی کی علامت ہے۔ اگر کسی اور زبان کے لوگ ان کی ریاست  میں اکثریت میں آ گئے تو ان کی شناخت ختم ہو جائے گی اور اس سرزمین پر ان کا حق بھی باقی نہیں رہے گا۔  یہی وجہ ہےکہ علاقائی ثقافت اور زبان سے تعلق رکھنے والے  افراد کسی زبان کو ’روزگار‘ حاصل کرنے کیلئے نہیں سیکھتے  بلکہ اپنی ثقافت اور ورثےکے تحفظ کی خاطر پڑھتے ہیں۔ تمل ناڈوہو، آندھرا پردیش ہو، یا مغربی بنگال وہاں ہندی کو پڑھانے کی ہر زمانے میں مخالفت ہوئی۔ 
 مراٹھی والوں کا خوف بھی یہی ہے کہ ہندی کو اگر مہاراشٹر پر تھوپ دیا گیا تو ان کی اپنی ثقافت، اپنی روایات  خطرے میں پڑسکتی ہے۔ راج ٹھاکرے نے واضح طور پر یہ کہا ہے کہ ’’ ہم قومی سطح پر ہندو ہیں لیکن مہاراشٹر میں ہم مراٹھی ہیں۔‘‘ ان کے اس جملے کو سمجھنے کیلئے تاریخ کے طویل مطالعے کی ضرورت ہے۔  یہ سوال بھی درست ہے کہ جب گجرات میں، یوپی میں یا بہار میں کسی تیسری زبان کو لازمی قرار نہیں دیا گیا ہے تو پھر مہاراشٹر میں اسے کیوں لازمی قرار دیا جا رہا ہے؟ شاید اس اعتماد پر کہ یہاں حکومت کے پاس مکمل اور مستحکم اکثریت ہے۔ یہاں اسے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن جنوبی ہند کی طرح مہاراشٹر میں بھی مقامی باشندے اتنی آسانی سے ہندی کو  اپنے بچوں کیلئے لازمی قرار دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ سیاستدانوں کے علاوہ قلمکاروں  اور ادیبوں کی جانب سے بھی اس کی مخالفت ہونے پر حکومت کو اپنے قدم وقتی طور  پر ہی سہی روکنے پڑے ہیں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK