کینٹین کے ملازم کی پٹائی، ودھان بھون میں مخالف رکن اسمبلی کے کارکن پر حملہ ، احتجاج کرنے والی تنظیم کے کارکنان کے ساتھ مارپیٹ، وزیراعلیٰ یوں ناراض نہیں ہوئے
EPAPER
Updated: July 24, 2025, 7:39 AM IST | Mumbai
کینٹین کے ملازم کی پٹائی، ودھان بھون میں مخالف رکن اسمبلی کے کارکن پر حملہ ، احتجاج کرنے والی تنظیم کے کارکنان کے ساتھ مارپیٹ، وزیراعلیٰ یوں ناراض نہیں ہوئے
گزشتہ دنوں مہاراشٹر اسمبلی کے احاطے میں جتیندر اوہاڑ اور گوپی چند پڈلکر کے کارکنان کے درمیان ہوئی مارپیٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے ایوان میں کہا تھا ’’ باہر لوگ کہہ رہے ہیں ان تمام اراکین اسمبلی کو مستی چڑھی ہوئی ہے۔‘‘ اگر گزشتہ کچھ دنوں میں پیش آئے واقعات پر نظر ڈالیں تو باہر لوگ کہہ رہے ہوں یا نہ کہہ رہے ہوں وزیر اعلیٰ کا یہ بیان بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سے قبل سیاستدانوں نے گالی گلوج اور مارپیٹ نہ کی ہو لیکن ماضی میں ان کی مارپیٹ غیر قانونی ہوتے ہوئے بھی اس کا کوئی جواز ہوتا تھا۔ اس کی کوئی سیاسی وجہ ہوتی تھی۔ وہ کسی آئینی عہدے پر بیٹھ کر ذاتی نوعیت کے جھگڑے نہیں کرتے تھے۔ حالیہ واقعات میں واضح طور پر اراکین اسمبلی میں اقتدار کا نشہ دکھائی دے رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس معاملے میں کسی ایک پارٹی کے نہیں بلکہ مہایوتی میں شامل تینوں پارٹیوں کے اراکین شامل ہیں۔
جولائی کی ابتداء میں شیوسینا (شندے) کے رکن اسمبلی سنجے گائیکواڑ نے ممبئی میں ایم ایل اے کینٹین کے ملازم کو اس لئے مکوں سے پیٹ دیا کہ اس نے کھانے میں باسی دال دیدی تھی۔ حالانکہ وہ اس کی شکایت درج کرواکر اسے ملازمت سے برخاست کروا سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ملازم کو پیٹنا ضروری سمجھا وہ بھی کیمرے کے سامنے اپنے ہاتھوں سے۔ یہ تو کینٹین کا معاملہ ہوا۔ اس کے بعد ٹھیک ودھان بھون کے لان میں بی جے پی رکن اسمبلی گوپی چند پڈلکر کے کارکنان نے جتیندر اوہاڑ کے کارکن پر حملہ کر دیا۔ یہ بات درست ہے کہ اسمبلی کے احاطے پہلے جتیندر اوہاڑ نے’منگل سوتر چور‘ کا فقرہ کسا تھا اور گوپی چند پڈلکر سے چھیڑ خانی کی تھی۔ دوسرے دن پھر وہ پڈلکر کی کار کے سامنے گئے جہاں دونوں میں تو تو میںمیں ہوئی۔ اس دوران بھی پڈلکر نے چھوٹتے ہی گالی گلوج کی تھی۔ تیسرے دن پڈلکر اپنے ساتھ اپنے ’مضبوط‘ کارکنان کو لے کر آئے جنہوں نے جتیندر اوہاڑ کے دست راست نتن دیشمکھ کی پٹائی کرکے رکھ دی۔
ابھی وزیر اعلیٰ نے اس واقعے کی ایوان میں مذمت کی ہی تھی کہ اگلے روز لاتور میں این سی پی (اجیت) کے ریاستی سربراہ سنیل تٹکرے کی پریس کانفرنس میں’ چھاوا ‘ نامی تنظیم کے کارکنان کی پٹائی کر دی گئی۔ انہیں اتنا مارا گیا کہ ان میں سے کچھ بے دم ہو گئے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں سنیل تٹکرے کی پریس کانفرنس میں ریاستی وزیر زراعت کے خلاف احتجاج کیا تھا جو ایوان میں کسانوں کے مسائل اٹھانے کے بجائے موبائل پر رمی کھیل رہے تھے۔ ’چھاوا‘ کے کارکنان نے احتجاجاً سنیل تٹکرے کی میز پر ’رمی‘ کے پتے بچھائے ۔ اسے این سی پی کے لاتور صدر سورج چوہان نے تٹکرے کی شان میں گستاخی تصور کیا اور ان کارکنان پر حملہ کر دیا۔ اس کا ویڈیو وائر ل ہوا تو پھر ایک بار سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی۔
ان تینوں واقعات نے مہایوتی حکومت کو سوالات کے گھیرے میں لا دیا ہے ۔ یہ تینوں معاملات ایسے ہیں جنہیں خوش اسلوبی سے سلجھایا جا سکتا تھا۔ جہاں سنجے گائیکواڑ متعلقہ محکمے سے شکایت کرکے کینٹین ملازم کے خلاف کارروائی کروا سکتے تھے وہیں گوپی چند پڈلکر بھی جتیندر اوہاڑ کی فقرے باز پر اسمبلی اسپیکر کی توجہ مبذول کروا سکتے تھے۔ تیسرے واقعے میں سنیل تٹکرے جو کہ ریاستی وزیر رہ چکے ہیں ، فی الحال رکن پارلیمان ہیں وہ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ احتجاج کرنے والے کارکنان کو پولیس سے کہہ کر وہاں سے ہٹایا جا سکتا تھا۔ ان تینوں ہی مواقع پر مہایوتی لیڈران نے اشتعال سے کام لیا اور سامنے والے پر حملہ کر دیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مہایوتی لیڈران اپنی آنکھوں کے سامنے کوئی ناگوار بات ہوتی ہوئی دیکھنا نہیں چاہتے اور سامنے والے کے خلاف کارروائی کیلئے وہ قانون کے استعمال کو بھی ضروری نہیں سمجھتے بلکہ اپنے ہاتھوں ہی سے سامنے والے کو سزا دینا چاہتے ہیں۔ اس پر اگر لوگوںکو یہ لگتا ہے کہ ان اراکین اسمبلی کو ’مستی چڑھی ‘ ہوئی ہے تو غلط نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ کا بطور سرزنش دیا گیا بیان صرف موقع پر زبان سے نکلا ہوا جملہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ عوام صرف ایسا کہہ نہیں رہے ہیں بلکہ انہیں یہ سب دکھائی دے رہا ہے۔