Inquilab Logo

یورپ کے’ گروتھ انجن ‘جرمنی پر کساد بازاری کا سایہ،’سپر پاور‘ امریکہ کا خزانہ بھی خالی ہو رہا ہے

Updated: May 30, 2023, 11:17 AM IST | Washington|New delhi

لگا تار ۲؍سہ ماہی میںجرمنی کی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی ) میں کمی سے ملک کی معیشت غیر مستحکم ، امریکی خزانہ میں۷۶ء۵؍ بلین ڈالرکی رقم بچی ہے جبکہ ا سے جون میں بڑی ادائیگی کرنی ہے

Germany is recognized as the fourth largest economy in the world
جرمنی کو دنیا کی چوتھی بڑی معیشت تسلیم کیاجاتا ہے

جرمنی، جسے یورپ کا ’گروتھ انجن‘ کہا جاتا ہے، کساد بازاری کے بحران میں  قدم رکھ چکا ہے۔ جرمنی کو دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔۲۰۲۳ء کی پہلی سہ ماہی میں جرمنی کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں۰ء۳؍ فیصد کی کمی درج کی گئی ہے۔گزشتہ سال کی چوتھی سہ ماہی میں۰ء۵؍ فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔ جرمنی میں جی ڈی پی دو سہ ماہیوں سے کم ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے معیشت میں عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ 
جرمنی کی معیشت کتنی  زوال پذیر ہے؟
 جرمنی کی معیشت میںلگاتارگراوٹ جاری ہے۔گزشتہ دو سہ ماہیوں سے ملک میں گھریلو مصنوعات میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۲۳ء کی پہلی سہ ماہی میں۱ء۲؍ فیصد کی کمی آئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سرکاری اخراجات میں۴ء۹؍ فیصد کی کمی آئی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو جرمن وزیر خزانہ کرسچن لِنڈنر نے کہا تھا کہ گھریلو مصنوعات کے اعداد و شمار سے حیران کن طور پر منفی علامات ظاہر  ہوتی ہیں۔ معیشت کے باقی دیگر سیکٹروں میں بھی دیکھا جائے تو ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں جرمنی کی معیشت بہت پیچھے دکھائی دے رہی ہے۔ملک اپنے صنعتی شعبے کی توانائی کی ضروریات کو پائیدار طریقے سے پورا کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔ اس کے ساتھ ملک میں روسی ایندھن کی سپلائی بھی مکمل نہیں ہو  پارہی ہے۔ملک میں سیاسی اور کاروباری طبقے کو بھی نئے چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ تاہم، اسکولز انتظامیہ  نے ۲۰۳۰ء  تک ۶۲۵؍ ملین سولر پینل اور۱۹؍ہزار وِنڈ ٹربائن لگانے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن یہ اسکیم بھی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے میں ناکام ہے۔ ملک میں  متعدد شعبوں اور سیکٹروںکی برق کاری کی جارہی ہے۔
 اس کا ہندوستان پر کیا اثر پڑے گا؟
 جرمنی کی معیشت میں سست روی  سےیقینی طور پر ہندوستانی برآمدات متاثر ہوسکتی ہے۔ ہندوستان سے سب سے زیادہ  ملبوسات، جوتے اور چمڑے کی اشیاء جرمنی برآمد ہوتی ہیں۔ گزشتہ سال سے ہی معاشی کساد بازاری کی قیاس آرائیاں جا ری ہیں۔ عالمی بینک سے لے کر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ تک کئی بار جرمنی کو کساد بازاری  سے آگاہ کر چکے  تھے اور ساتھ ہی کئی مواقع پر کساد بازاری کو ناگزیر بھی بتا چکے ہیں۔ جرمنی کے شماریات کے دفتر نے ان ا ندیشوں کو گزشتہ ہفتے درست ثابت کردیا، جب اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ مارچ ۲۰۲۳ء کی سہ ماہی کے دوران جرمنی کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) میں۰ء۳؍ فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ اس  سے قبل گزشتہ سال کی آخری سہ ماہی یعنی اکتوبر سے دسمبر۲۰۲۲ء کے دوران جرمنی کی جی ڈی پی میں۰ء۵؍ فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی۔
معاشی کساد بازاری کیا ہے؟
 معاشیات کی مقبول تعریف کے مطابق اگر  کسی معیشت کی مجموعی گھریلو پیداوار(جی ڈی پی) مسلسل دو سہ ماہیوں کے دوران سکڑتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ متعلقہ معیشت پر کساد بازاری کا خطرہ  ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جرمن معیشت اب سرکاری طور پر کساد بازاری کا شکار ہے۔ یہ ایک راحت کی بات ہے کہ جرمنی کی جی ڈی پی میں کمی کی شرح ایک سہ ماہی کی بنیاد پر کم ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی کساد بازاری تو ہے لیکن فی الحال شدید نہیںہے۔
کیا امیر ترین ملک ڈیفالٹ کر سکتا ہے؟
 دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ کی بات کریں تو ان دنوں اس کے سامنے ایسا بحران کھڑا ہو گیا ہے جو آج تک کبھی نہیں دیکھا گیا۔ تاریخ میں پہلی بار امریکہ نادہندہ ہونے کے دہانے پر ہے۔ امریکہ کا سرکاری خزانہ تقریباً خالی ہے۔ حکومت کے پاس اب قرضے بڑھانے کا کوئی آپشن نہیں بچا۔ جنوری۲۰۲۳ء میں ہی حکومت نے۳۱ء۴؍ٹریلین ڈالر قرض کی زیادہ سے زیادہ حد کو چھو لیاتھا۔اس کے بعد رقم جمع کرنے کیلئے اضافی اقدامات کیے گئے۔ محکمہ خزانہ نے اپنے پاس دستیاب تمام وسائل کا استعمال کرتے ہوئے یہ اقدامات کئے۔ اس کے بعد امریکی حکومت کو اتنی رقم مل گئی کہ وہ چند ماہ تک کام کر سکتی تھی۔ اب یہ رقم بھی اسی ہفتے ختم ہونے والی   ہے۔۲۳؍مئی تک امریکی خزانہ میں۷۶ء۵؍ بلین ڈالر کی نقد رقم باقی تھی۔ دوسری طرف مسئلہ یہ ہے کہ ا سے جون کے آغاز میںبڑی ادائیگی کرنی ہے۔ایسی صورت حال میں’ ایکس ڈیٹ‘ یعنی وہ تاریخ جب خزانے مکمل طور پر خالی ہو جائیں گے ، زیادہ دور نہیں۔
قرض کے بعد مہنگائی کی بھی افتاد 
 مہنگائی نے امریکہ کے سامنے ایک اور خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ امریکی محکمہ تجارت نے ہفتے کے آخر میں افراط زر کے اعداد و شمار جاری کر دیئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل کے مہینے کے دوران ذاتی کھپت کے اخراجات کا اشاریہ۴ء۴؍ فیصد تک بڑھ گیا۔ مارچ میں یہ۴ء۲؍ فیصد تھا۔ امریکہ میں، اس اشاریہ کو وہی اہمیت حاصل ہے جو ہندوستان میں خردہ قیمت کے اشاریہ پر مبنی افراط زر کی ہے۔ آسان الفاظ میں کہا جا سکتا ہےکہ  اسی  اشاریہ سے شرح سود  میں کمی بیشی کا فیصلہ کیاجاتا ہے۔ اپریل میں شرح میں اضافے کے بعد  یہ ا ندیشہ بڑھ گیا ہے کہ فیڈرل ریزرو جون میں بھی شرح سود میں اضافہ کر سکتا ہے جو پہلے سے ہی سست جی ڈی پی کی شرح نمو کو مزید افسردہ کر سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK