Inquilab Logo

خراج عقیدت : شیرین ابو عاقلہ، ایک بہادرصحافی جومظلوم فلسطینیوں کی توانا آوازتھی

Updated: May 13, 2022, 2:33 PM IST | Al Jazeera | Jerusalem

’’میں نے صحافت کا انتخاب اسلئے کیا کہ لوگوں سے قریب ہوسکوں۔ حقیقت کو بدلنا آسان نہیں ہے ، لیکن کم ازکم میں اتنا کرسکتی ہوں کہ ان کی آواز (فلسطینیوں کی)کو دنیا تک پہنچاسکوں ۔ ‘‘-شیرین ابوعاقلہ

Shereen Abu Aqleh.Picture:INN
الجزیرہ کی صحافی شیرین ابوعاقلہ یروشلم میں ایک معاملے کی رپورٹنگ کے دوران۔ تصویر: آئی این این

  فلسطین میں الجزیرہ کی  صحافی شیرین ابو عاقلہ بدھ کو اسرائیلی فورسیز کی فائرنگ میں جاں بحق ہوگئیں۔ شیرین ابوعاقلہ سینئر ٹیلی ویژن کرسپونڈنٹ تھیں ، وہ اسرائیل فلسطین تنازع کی جراتمندانہ رپورٹنگ کے ذریعے عرب دنیا میں ایک مشہور و جاناپہچانا نام بن چکی تھیں۔ شیرین بنیادی طور پر یروشلم کی رہنے والی تھیں۔ بعد میں انہوں نے امریکہ کی شہریت اختیار کرلی ۔ ۵۱؍ سالہ شیرین نے شادی نہیں کی تھی، ان کے اہل خانہ میں فقط ایک بھائی ٹونی ابو عاقلہ ہیں۔  شیرین کے دوست اور ساتھی اسے ایک زندہ دل،  بہادر اور رحم دل رپورٹر قراردیتے ہیں۔ شیرین نے اپنی ۳؍دہائیوں کی صحافتی زندگی میں  فلسطینیوں کی جدوجہد کو آواز دی اور عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کو بے نقاب کرنے کا کام کیا۔ 
 مغربی کنارہ میں الجزیرہ کی رپورٹراور شیرین کی رفیقہ کار ندا ابراہیم، اپنی سینئر ساتھی کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’یہ ہمارا نقصان عظیم ہے۔ وہ بڑی رحم دل اور اپنے کام کے تئیں ایماندار و محنتی تھیں۔ شیرین میں کہانیوں کو بیان کرنے کا ہنر کمال کا تھا۔ ان کی نیوز رپورٹیں حقائق و معلومات سے پُرہوا کرتی تھیں۔‘‘یہ کہتے کہتے  نداابراہیم کی آنکھیں بھرآئیں اور گلارندھ گیا۔ ندا ابراہیم نے بتایا کہ اپنی موت سے کچھ وقت پہلے سے شیرین عبرانی زبان سیکھ رہی تھیں، ان کا مقصد یہ تھا کہ  اسرائیلی میڈیا کے بیانیہ کو بہتر طریقے سے سمجھا جائے ،اتنا ہی نہیں شیرین نے ڈیجیٹل میڈیا پر ایک ڈپلوما کور س بھی مکمل کیا تھا۔  ۱۹۷۱ء میں  یروشلم کے ایک عیسائی گھرانے میں شیرین ابوعاقلہ کی پیدائش ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے  بعد شیرین  نے آرکیٹیکچر کی تعلیم حاصل کی ۔ پھر صحافت میں شیرین کی دلچسپی بڑھی ۔ اردن کی یرموک یونیورسٹی میں شیرین نے صحافت میں گریجویشن کیا۔ اس کےبعد وہ فلسطین لوٹ آئیں ۔ کئی خبر رساں اداروں کے لئے انہوں نے کام کیا جن میں وائس آف فلسطین  ریڈیو، عمان سیٹیلائٹ چینل وغیرہ  شامل تھے۔ بعد ازیں وہ  ۱۹۹۷ء میں الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک سے وابستہ ہوگئیں۔ ۲۰۰۰ء  میں دوسرے فلسطینی انتفادہ کی بیباکانہ رپورٹنگ  سے انہوں نے شہرت حاصل کی ۔شیرین کو اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی فکر تھی، اپنے ایک پرانے ویڈیو انٹرویو میں اس کا ذکر انہوں نے یوں کیا تھا کہ :’’ میں نے صحافت کا انتخاب اسلئے کیا کہ لوگوں سے قریب ہوسکوں۔ حقیقت کو بدلنا آسان نہیں ہے ، لیکن  کم ازکم میں اتنا کرسکتی ہوں کہ ان کی آواز کو دنیا تک پہنچاسکوں ۔ ‘‘ شیرین ابوعاقلہ نے بطور ٹیلی ویژن صحافی ہر چھوٹے بڑے معاملات کی رپورٹنگ بخوبی کی ہے ۔۲۰۰۶ء کی لبنان جنگ کے بعد  انہوں نے غزہ جنگ ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء، ۲۰۱۲ء، ۲۰۱۴ء کی رپورٹنگ بھی جراتمندی اور ایمانداری کے ساتھ کی ۔  الجزیرہ کی  رپورٹردالیا حطوقہ  نے کہا کہ ’’ شیرین نئی راہ دکھانے والی صحافی تھیں، وہ ہم سبھی کے لئے ایک مثال تھیں۔‘‘انہوں نے آگے کہا کہ ’’ شیرین کی کھلکھلاہٹ والی ہنسی کو کون بھول سکتا ہے ، انہیں شاپنگ کرنا، گھومنا پھرنا ، دنیا دیکھنا پسند تھا۔شیرین نے اپنے والدین کو کم عمری میں ہی کھودیا تھا، مظالم اور جارحیت کو اتنی قریب سے دیکھنے کے بعد بھی وہ زندہ دلی کیساتھ جی رہی تھیں۔‘‘ حطوقہ نے اپنی بات ان الفاظ پر ختم کی کہ ’’شیرین کی آواز بڑی پیاری تھی،  وہ درد بھری خبریں بھی سناتی توگراں نہیں گزرتی  ۔‘‘

palestine Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK