Inquilab Logo

یوپی: کورونا کے مریضوں کیلئےاسپتالوں میں جگہ نہیں

Updated: April 11, 2021, 2:54 PM IST | Inquilab News Network/Aamir Nadvi | Lucknow

طبی سہولیات انتہائی ناقص ، بیڈ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ مریض اسپتال کے دروازے ہی پر دم توڑ رہےہیں جن میں مریضوں کی جان بچانے والے ڈاکٹر اورنرس کےبھی اہل خانہ بھی شامل ہیں۔کوئی رو رہا ہے تو کوئی تڑپ رہا ہے لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے ۔ ایک معمر کی اسپتا ل کے گیٹ پر تڑپ تڑ پ کر موت

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔تصویر :آئی این این

  کورونا وائرس کے بڑھتے انفیکشن سے دارالحکومت لکھنؤ کے ساتھ ساتھ اترپر دیش کے دوسرے  اضلاع  میں طبی نظام کی بد حالی سامنے آرہی ہے ۔ اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے ، بیڈ نہ ملنے سے کئی مریض اسپتال کے گیٹ ہی پر دم توڑ دتے ہیں۔  دارالحکومت لکھنؤ  کورونا سے بےحال ہے جہاں روزانہ بڑی تعداد میں کورونا کے مریض  ملنے کے سارے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں اور نئے ریکارڈ قائم ہوتے جارہے ہیں۔ صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد کم ہورہی ہے جبکہ ایکٹو مریضوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اسپتالوں میں افراتفری اور چیخ پکار مچی ہوئی ہے ۔ حالات کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بڑی تعداد میں مریضوں کی جان بچانے والے ڈاکٹروں کے رشتہ دار وں کو بھی بیڈ نہیں مل پارہے ہیں۔ اسی لاپروائی کے سبب لوک بندھو اسپتال کے ایک ڈاکٹرکے والد کی موت ہوگئی  جبکہ پی جی آئی میں  مامور ایک نرس کی چھوٹی بچی بھرتی نہ پانے کے سبب دنیا چھوڑ گئی  ۔ کے جی ایم یو میں علاج نہ مل پانے سے ناراض تیمار داروں نے توڑ پھوڑ کی ۔انتظامیہ کو پولیس بلانی پڑی  جبکہ پی جی آئی میں نرسنگ اسٹاف نے کام کا بائیکاٹ کردیا۔  اسی دوران  پریا گ راج کے بیلی اسپتال میں بروقت  علاج نہ ملنے پرجمعرات کی رات ایک معمر شخص کی موت ہوگئی۔ اس کی بیٹیاں ڈاکٹروں سے سے  عاجزی کرتی  رہیں لیکن ڈاکٹروں کو ترس  نہیں آیا۔  کورونا کالکھنؤ میں بے قابو ہوتا جارہا ہے ۔ گزشتہ تین چار دنوں میں حالات  بد سے بدتر ہوگئے ہیں۔ ہر طرف افراتفری  اور چیخ  پکار کا عالم ہے ۔ اس میں صرف عام آدمی  نہیں پریشان ہے  بلکہ ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی اسپتالوں میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھرتی کرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں ، کوئی رو رہا ہے، تو کوئی تڑپ رہا ہے ۔ لیکن ان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے ۔  مریضوں کے تیماردار افسران کو فون لگاتے ہیں۔ ایک تو ان کا فون نہیں اٹھتا ہے ، اٹھ جائے تو ٹال مٹول کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آرہا ہے ۔ 
 اسپتالوں  سےخوفزدہ کردینے والی داستانیں سامنے آرہی ہیں۔ لکھنؤ کے سول اسپتال کے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر دیپک کے ۷۴؍سالہ والد ارجن چودھری  میںکورونا کی تصدیق ہوئی تھی ۔ اسپتال میں بھرتی کرانے کے لئے وہ  عاجزی کرتے رہے  لیکن کسی نے ان کی نہیں سنی ،بالآخر ان کی موت ہوگئی ۔ 
 سی ایم یس ڈاکٹر ایس کے نند ا بتاتے  ہیں کہ ان کے والد شوگر اور دل کے مریض بھی تھے ، اس سے قبل آئیسولیشن میں رہ چکے تھے۔ان کی طبیعت بگڑنے پر اسپتال میں بیڈ نہیں مل سکا ۔
  ڈاکٹر دیپک مزید کہتے ہیں کہ گھر میں انہوں نے کئی چیزیں خرید کر رکھی ہیں، ان کی طبیعت بگڑنے پر فون کرنے کے باجود ایمبولنس نہیں مل سکی، پرائیویٹ کار سے اسپتال لے کر پہنچے لیکن یہاں آئی سی یو بیڈ نہیں تھے کسی طرح پرائیویٹ اسپتال میں بھرتی کرایا  گیا لیکن تب تک بہت  دیر ہوچکی تھی ۔  پی جی آئی کی اسٹاف نرس سیما شکلا اپنی ایک سہیلی کی چھوٹی بچی کو بھرتی کرانے کے لئے فریاد کرتی رہی  لیکن اسے بھرتی نہیں کیا جاسکا۔ ذمہ دار پروٹوکول اور ضوابط کا درس دیتے رہے ۔ اہل خانہ اسے پرائیویٹ اسپتال لے کر بھاگے لیکن اس نے دم توڑ دیا۔
 اسی طرح میڈیکل اسٹاف میںشامل سریتا کی ۸؍ماہ کی بچی کی حالت سنگین تھی، پرائیویٹ اسپتال اسے بھرتی نہیں کر رہے تھے ۔ سرکاری اسپتال کے ذمہ دار بھی توجہ نہیں دے رہے تھے، نتیجہ یہ ہوا کہ بچی کی موت ہوگئی ۔ اس کے بعد پی جی آئی میں اسٹاف نرسوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کام  کاج کا بائیکاٹ کیا۔  
  اسی دوران سنیچر کو کے جی ایم یو میں مریض کے بھرتی نہ ہونے پر تیمارداروں نے توڑ پھوڑ کی ، خوب ہنگامہ کیا، شیشے توڑ دیئے ، کے جی ایم یو کو پولیس بلانی پڑی تو حالات قابو میںہوئے ۔ مذکورہ چند مثالیں ہیں لیکن حالات اس سے زیادہ خراب ہو سکتے ہیں۔ دن بہ دن مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ اسپتالوں میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ سبھی کو بیڈ دے سکیں ، جو بیڈ ہیں وہ فل ہوچکے ہیں۔ ایسے حالات میں ہر آئندہ کیا ہوگا؟ لو گ یہ سوچ کر بڑی طرح خوفزدہ ہیں۔ 
  اسی طرح پریا گ راج  کے اسپتالوں سے بھی  تڑپتے ہوئے مریض کولوٹادیئے جا رہے ہیں۔  جمعرات کی رات بیلی اسپتال میں موجود ڈاکٹراور اسٹاف کے منہ موڑ لینے سے  ایک ۶۵؍سالہ معمر کی تڑپ تڑپ کر موت ہوگئی ۔ ان کی دو بیٹیاں والد کی جان بچانے کیلئے ڈاکٹر وں سے سامنے گڑ گڑاتی رہیں روروکر کہتی رہیں کہ کوئی ان کے  باپ کو بچالے لیکن ان کی کوشش رائیگاں گئی۔ بعد میں جب افسر آئے تو تب  بہت دیر ہوچکی تھی۔ معمر شخص اسپتال کی چوکھٹ پر دم توڑچکاتھا۔
 راجہ پور کے رہنے والے راجیندر پرساد پانڈے(۶۵) ولد بہاری لال پانڈے کو سانس لینے میں دقت  تھی ۔بخار سے متاثر ہونے پر انہیں سرو پ رانی نہرو اسپتال میں جمعرات کی دوپہر دکھایاگیا جہاں راجیندر کی کورونا جانچ کی گئی لیکن رپورٹ نہیں بتائی گئی ۔ 
 اس سلسلے میں ان کی ایک بیٹی نے بتایا کہ سروپ رانی نہرو اسپتال سے انہیں بیلی اسپتال بھیجاگیا ۔ اس درمیان وہ  باپ کی جان بچانے کیلئے انہیں ایک نجی اسپتال بھی لے گئی لیکن وہاں بھی کورونا جانچ رپورٹ کے بغیر بھرتی کرنے سے انکار کردیاگیا، حالانکہ وہاں نمونہ ضرور لیاگیا۔ دیر رات جب وہ پھر سے والد کو لے کر بیلی اسپتال پہنچیں تو انہیں  اسپتال  کےگیٹ  ہی پر  روک دیاگیا۔ بیٹی میڈیکل اسٹاف سے بار بار کہتی رہی کہ دو گھنٹے کے لئے والد کو بھرتی کرلیاجائے، انہیں آکسیجن کی ضرورت ہے لیکن وہاں موجود اسٹاف نے ایک نہ سنی اور انہیں گیٹ کے باہر بٹھادیا، وہیں بٹیوں کے سامنے  راجیندر کی موت ہوگئی ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK