Updated: April 29, 2025, 9:58 PM IST
| Washington
ٹرمپ انتظامیہ ایسے تارک وطن نابالغ بچوں پر بھی کریک ڈاؤن شروع کررہی ہے جو امریکی سرحدوں پر بے یارومددگار چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ امریکہ ان بچوں کو انسانی بنیادوں پر قبول کرتا ہے، اور پھر ان کے والدین کیلئے امریکہ کی سرحدیں کھل جاتی ہیں۔ ان نابالغ بچوں کے توسط سے والدین کو امریکہ کا گرین کارڈ آسانی سے مل جاتا ہے۔
حال ہی میں امریکی سرحدوں پر ہندوستانی بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو تنہا پایا گیا ہے، جن کے خاندان گرین کارڈ حاصل کرنے کی امید میں ایسا کر رہے ہیں۔ کرونا وبا کے بعد کے سالوں میں یہ خوفناک رجحان تیزی سے بڑھا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اکتوبر۲۰۲۴؍ سے فروری ۲۰۲۵ء تک کم از کم ۷۷؍ تنہا بچوں کو سرحدی سیکورٹی اہلکاروں نے گرفتار کیا۔ دریں اثنا، ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف سخت کارروائی کے دوران تنہا مہاجر بچوں کو ڈھونڈ کر انہیں ملک بدر کرنے یا ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، متعدد گجراتی خاندانوں نے گرین کارڈ حاصل کرنے کیلئے جان بوجھ کر بچوں کو تنہا چھوڑنے کے اس طریقہ کار کو اپنانے کا اعتراف کیا ہے۔ اشاعت میں ایک قابل ذکر معاملہ مہسانا کے ایک جوڑے سے متعلق تھا، جہاں والد (ایک وکیل) نے بتایا کہ کس طرح وہ اور اس کی اہلیہ وبا کے دوران غیرقانونی طور پر اٹلانٹا چلے گئے تھے اور اپنے دو سالہ بیٹے کو ہندوستان میں چھوڑ گئے تھے۔ تین سال بعد، بچے کو ایک کزن (جو غیرقانونی طور پر سفر کر رہا تھا) کے ذریعے امریکہ لایا گیا اور ٹیکساس کے قریب سرحد پر صرف ایک نوٹ کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا گیا جس میں رابطے کی تفصیلات درج تھیں۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ حکومت کے۱۰۰؍ د ن ، امریکہ کے یورپی اتحادی ناراض، ورلڈ آرڈر متاثر ہونے کا اندیشہ
زیادہ تر معاملات میں بچے کچھ بڑے ہوتے ہیں۱۲؍ سے ۱۷؍ سال کی عمر کے اور خود کو امریکہ - میکسیکو سرحد پر تنہا پاتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ۷۷؍ میں سے۲۲؍ بچوں کو کنیڈا کے مشکل راستے سے گزرتے ہوئے پکڑا گیا، جبکہ کچھ دیگر کو ملک کے اندر ہی روک لیا گیا۔ بچے ’گرین کارڈ‘ کی طرح کام کرتے ہیں، والدین کو ’انسانی بنیادوں‘ پر پناہ مانگنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ گجرات کے ایک شخص نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا، ’’میں جانتا تھا کہ انہیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ وہ میرے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ تھے،اور آخر کار وہ امریکی قانونی اداروں کے تحویل میں ہونے والے تھے، ہم انتظار نہیں کر سکتے کہ ہمارے بچے ہندوستان میں اپنی تعلیم مکمل کریں اور پھر امریکہ جانے کے قانونی طریقے اپنائیں۔ اگر وہ وہاں پہلے سے ہی موجود ہوں جب وہ چھوٹے ہوں، تو وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکتے ہیں، نوکری تلاش کر سکتے ہیں اور اچھی کمائی کر سکتے ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: امریکہ کی ٹاپ یونیورسٹیاں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف متحد: رپورٹ
لیکن جیسے جیسے ٹرمپ انتظامیہ نقل مکانی پر اپنا موقف سخت کرتی جا رہی ہے، ایسے بچوں کو جلد ہی ملک بدری یا مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دی گارجین کی ایک رپورٹ کے مطابق، امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کے اہلکار اب ’فلاحی ملاقاتوں‘ کے دوران ایسی وجوہات کی بنا پر پورے امریکہ میں تنہا مہاجر بچوں کو ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ تنہا بچوں کو فراہم کی جانے والی قانونی مشاورت میں بھی اس سال کمی کی گئی ہے — عدالت کی مداخلت کے باوجود فنڈ جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ تنہا مہاجر بچوں کی نگرانی کرنے والی وفاقی ایجنسی نے بھی محکمہ کے ساتھ حساس معلومات شیئر کرنا شروع کر دیا ہے۔