Updated: July 07, 2023, 5:03 PM IST
| Bengaluru
کرناٹک ہائی کورٹ نے شاہین انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ کے خلاف بغاوت کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال توہین آمیز ہے اور یہ ایک غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے لیکن یہ ملک سے غداری کےزمرےمیں نہیں آتا۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں اسکولوں کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ بچوں کو حکومتوں پر تنقید کرنے سے دور رکھیں۔
کرناٹک ہائی کورٹ۔ تصویر : آئی این این
کرناٹک ہائی کورٹ نے شاہین اسکول انتظامیہ کے خلاف بغاوت کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیر اعظم کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال توہین آمیز ہے اور یہ ایک غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے لیکن یہ ملک سے غداری کےزمرےمیں نہیں آتا۔‘‘ اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس ہیمنت چندن گودار نے نیو ٹاؤن پولیس اسٹیشن (بدر) کی ایف آئی آر کو رد کردیا۔ واضح رہے کہ بدر پولیس نےعلاء الدین ، عبد الخالق، محمد بلال انعامدار اور محمد مہتاب کےخلاف ملک سے بغاوت کا یہ کیس درج کیا تھا۔ یہ تمام افراد شاہین اسکول (بدر) کے عملے کا حصہ ہیں۔ عدالت نے کہا کہ اس مقدمے میں آئی پی سی کی دفعہ۱۵۳(اے) (مذہبی گروپوں میں انتشار پھیلانا) کی جزیات نہیں ہیں۔
جسٹس چندن گودار نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’’وزیر اعظم کو جوتے سے مارنے والی بات کہنا اور انہیں گالیاں دینا توہین آمیز اورغیر ذمہ دارانہ حرکت ہے۔ سرکاری پالیسی پر تعمیری تنقید جائز ہے، لیکن آئینی کارکنوں کی توہین نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے ایسی پالیسی کیوں بنائی ہے۔ اس پر بعض لوگوں کو اعتراض ضرور ہو سکتا ہے۔‘‘
اگرچہ یہ الزام لگایا گیا تھا کہ بچوں کے ذریعہ بنائے گئے ڈرامے میں حکومت کے مختلف قوانین پر تنقید کی گئی تھی اور ’’اگر اس طرح کے قانون نافذ کئے گئے تو مسلمانوں کو ملک چھوڑنا پڑ سکتا ہے،‘‘ ہائی کورٹ نے نوٹ کیا کہ ’’اس ڈرامے کو اسکول کے احاطے میں نافذ کیا گیا تھا۔ بچوں کی طرف سے ایسے کوئی الفاظ نہیں کہے گئے جو لوگوں کو تشدد کا سہارا لینے یا عوامی انتشار پیدا کرنے کیلئےاکسائیں۔‘‘ ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ’’اس ڈرامے کا علم اس وقت ہوا جب ایک ملزم نے اس ڈرامے کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کیا۔ لہٰذا کسی بھی طرح کے تصور کے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہاں درخواست گزاروں نے لوگوں کو حکومت کے خلاف تشدد پر اکسانے کے ارادے سے یا عوامی انتشار پیدا کرنے کے ارادے سے ڈرامے نہیں بنایا تھا۔‘‘ عدالت نے کہا کہ ’’بغاوت یا تشدد کے اجزاء نہ ہونے کے سبب دفعہ۱۲۴ (اے) (غداری) اور دفعہ۵۰۵(۲) کے تحت ایف آئی آر کا اندراج جائز نہیں ہے۔‘‘ واضح رہے کہ ۲۱؍ جنوری ۲۰۲۰ء کو چوتھی، پانچویں اور چھٹی جماعتوں کے طلبہ کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ(این آر سی) کے خلاف ایک ڈرامے کے انعقاد کے بعد شاہین اسکول کے حکام کے خلاف بغاوت کی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔