Inquilab Logo

زلزلہ میں امداد سے محروم ووٹر طیب اردگان کو سبق سکھانا چاہتےہیں،وال اسٹریٹ جرنل کا دعویٰ

Updated: May 11, 2023, 11:30 AM IST | Ankara

مو زین بہا پ آئندہ ۱۴؍ مئی کے صدارتی انتخابات میں اپنےحق رائے کا استعمال کر نے کیلئےتقریبا ً ۲؍ سو میل کا سفر کریں گی، وہ ترکی کی ان لاکھوں ووٹروں میں سے ایک ہیں جو تباہ کن زلزلے میں بے گھر ہوگئی تھیں

photo;INN
تصویر :آئی این این

تباہ کن زلزلےمیں امداد سے محروم رہ جانےو الے  یا خاطر خواہ امداد نہ پانے  والے تر ک باشندوں نے تر ک صدر رجب طیب اردگان کو الیکشن میں سبق  سکھا ئیں گے ۔ یاد رہےکہ  فروری کے زلزلے میں ترکی میں  بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی۔۵۰؍ ہزا رسے زائد افرا لقمۂ اجل بن گئے تھے جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ 
 ا س سلسلے میں امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جنرل‘  نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں بتایا کہ مو زین بہاپ  آئندہ  ۱۴؍ مئی  کے صدارتی انتخابات میں اپنےحق رائے کا استعمال کر نے کیلئےتقریبا ً ۲؍ سو میل کا سفر کریں گی۔  وہ   ترکی کی ان لاکھوں ووٹروں میں سے ایک ہیں جو تباہ کن زلزلے میں بے گھر ہوگئی تھیں ۔   دراصل وہ طیب اردگان کو سبق سکھانا چاہتی ہیں اور ان کا اقتدار ختم کرنا چاہتی ہیں۔ 
 مو زین بہا پ وال اسٹریٹ جرنل سے بات چیت کرتے ہوئے کہتی ہیں ،’’ میں ۱۴؍ مئی کو اردگان کے۲۰؍ سالہ اقتدار کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کروں گی اور ہر حال میں اپنے حق رائے کا استعمال کروں گی۔ ‘‘
  یاد رہےکہ ترکی میں ۱۴؍  مئی کو انتخابات ہوں گے جس میںا پوزیشن ترک صدر رجب اردگان کو شکست دینے کیلئے کمربستہ  ہے۔  اس سلسلے میں ۶؍ جماعتوں  نے اتحاد کیا ہے ۔ یہ  اتحاد ریپبلکنز پیپلز پارٹی ( سی ایچ پی )کی قیادت میں قائم  ہے۔ حکومت مخالف اپوزیشن کا قومی  اتحاد بڑے پیمانے پر مہم چلا رہا ہے  اور ان کی ریلیوں میں بھی  بھیڑ نظر آرہی ہے۔  اپوزیشن کی ریلیوں میں بھیڑ دیکھ کر  ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طیب اردگان کا سب سے مشکل الیکشن ہے۔   
 تر کی  کے انتخابی نظام  کے بارےمیں  
   تر ک قانون کے مطابق  صدارتی انتخابات  میں کامیابی کیلئے کسی بھی جماعت کو ۵۰؍ فیصد ووٹ حاصل کرنا ضروری  ہے۔ اگر ۱۴؍ مئی کے انتخابات میں کوئی جماعت ۵۰؍ فیصد ووٹ حاصل نہیں کرسکی تو ۲۸؍ مئی کو دوبار ہ انتخابات ہوں گے۔  ماہرین کا کہنا ہے کہ مقابلہ سخت ہوگا ، ہوسکتا ہےکہ ۱۴؍ مئی کو کسی کوبر تری نہ ملے اور ۲۸؍مئی ہی کو فیصلہ ہو۔ 
  مخالفین کا کیا کہنا ہے؟ 
  زلزلے کےبعد اپوزیشن کا کہنا ہے کہ  ترک صدر رجب طیب اردگان نے بلڈروں کو چھوٹ دی تھی ، اسی لئے کمزور عمارتیں تعمیر کی گئیں اور اتنے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ۔ اگر طیب اردگان   نے  بلڈروں کے ساتھ سختی کی ہوتی تو نقصان کم ہوتا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن کا یہ بھی کہنا ہےکہ زلزلہ متاثرین کی  فوری طور پر مدد نہیں کی گئی ۔ 
  رطیب اردگان کا جواب 
    دوسری طرف رجب طیب اردگان نے زلزلہ متاثرین کو فوری طور پر مکان دینے کا وعدہ ہے  اور کم سود  پر مکان فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے، اس کی وجہ سے ان سے ایک بڑا طبقہ پر امید ہے۔  عید کے اپنے پیغام میں ترک صدر نے بے گھر افراد کو  مکان دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ 
 آمریت کا الزام  
    اپوزیشن نے ترک صدر رجب اردگان پر مخالفین کی آواز دبانے کا الزام عائد کیا ہے۔  ان کہنا ہے کہ وہ آمر ہوچکے ہیں ۔ اپنے مخالفین کو برداشت نہیں کر رہےہیں۔ اپنے سخت قانون کی مدد سے ان پر ظلم کررہےہیں۔ 
اردگان کے افسران کا جواب 
  دوسری طر ف ترکی کے افسران کہتے ہیں کہ  ترک صدر رجب طیب اردگان نے ملک کو مضبوط کیا  ہےاور عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون بنائے ہیں۔ انہوں نے ملک کو فوجی  بغاوت سے بچانے کیلئے سخت قانو ن بنائے  ہیں، یہی وجہ ہے کہ ۲۰۱۶ء کے بعد ملک میں کوئی اور بغاوت نہیں ہوئی ہے۔ 
  ماہرین کی رائے 
   ماہرین کے مطابق   تباہ کن زلزلے اور  مہنگائی سے طیب اردگان کمزور ضرور ہوئے ہیں لیکن مذہبی حلقوں میں ان کی مقبولیت برقرا ر ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن کے اتحاد کےباوجود انہیں شکست دینا اتنا آسان نہیں ہو گا ۔  وال اسٹریٹ کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق   ایک بڑی تعداد نے یہ بھی  دعویٰ کیا کہ ترکی کے انتخابات میں  زلزلہ متاثرین اہم کردار ادا کرسکتے ہیں  ۔ ان کا کہنا ہے کہ  وہ متاثرین جن کی خاطر خواہ مدد کی گئی ہے ، وہ  تر ک صدر رجب اردگان ہی حمایت کریں گے۔  
 ترکی   کےیورپ ا ور مشرقی وسطیٰ کے ممالک سے تعلقات
  ترکی کے یورپ اور مشرقی وسطیٰ کے کچھ ممالک سے تعلقا ت بنتے بگڑتے  رہےہیں۔ رجب طیب ارگان کی طاقت بڑھنے سے  یورپی ممالک بھی پر یشان ہیں ۔ ان کی قیادت میں ترکی  بار ہا  نیٹو اور دوسرے  عالمی فورم پر  اپنی آواز بلند کرتا  ر ہاہے ۔ کچھ مسائل پر یورپی ممالک  ایک  ہوجاتے ہیں لیکن ان میں تر کی سب سے الگ راستہ منتخب کرتا ہے۔ یہی وجہ یہ ہے کہ وقفے وقفے سے مختلف یورپی ممالک سےترکی کی نوک جھونک ہوتی رہی ہے ۔
 عالم اسلام میںمقبولیت 
 تر کی کے کچھ اقدام  کی  عالم اسلام میں بھی تعریف کی گئی۔  اس طرح عرب ممالک کے بجائے  ترکی کو اہمیت دی جانے لگی ۔ اس پر مشرق وسطیٰ میں اثر ورسوخ رکھنے والے ممالک بھی فکرمند ہوگئےہیں اور انہیں  اپنی پوزیشن خطر ے میں نظر آنے لگی۔  اس سے وہ کھل کرنہیں لیکن کچھ مسائل پر دبی زبان میں  رجب طیب  اردگان  کی مخالفت کرتےرہےہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK