وزیر ٹرانسپورٹ پرتاپ سرنائک کے مطابق حتمی پالیسی تشکیل پانے تک اور خدمات فراہم کرنے کے لائسنس کے بغیر بائیک ٹیکسی نہ چلانے
کا حلف نامہ دینے کے باوجود کمپنیاں یہ خدمات فراہم کررہی ہیں،اس کے علاوہ کئی کمپنیاں ایسی بھی ہیںجو حکومت کے ساتھ تعاون کررہی ہیں
بائیک ٹیکسی کی خدمات پر ممبئی میںفی الحال پابندی عائد ہے
وزیر ٹرانسپورٹ پرتاپ سرنائک نے انتباہ دیا ہے کہ ریپیڈو، اولا، اوبر یا دیگر کوئی بھی کمپنی بائیک ٹیکسی کی خدمات جاری رکھتی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور یہ کارروائی جاری رہے گی ۔ ان کے مطابق بائیک ٹیکسی کی پالیسی کو حتمی شکل دی جارہی ہے اور متعلقہ محکمہ سے لائسنس لئے بغیر یہ خدمات فراہم نہیں کرنے دی جائے گی۔
وزیر سرنائک نے کہا کہ شہریوں کی طرف سے بہت سی شکایات موصول ہورہی ہیں کہ ممبئی اور مضافات کے علاوہ میٹروپولیٹن میں واقع مختلف علاقوں میں ایگریگیٹر بائیک ٹیکسی کی خدمات بغیر لائسنس حاصل کئے فراہم کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے لائسنس حاصل کرنے تک ایسی خدمات بند رکھنے کا حکم دیا ہے اور متعلقہ ایگریگیٹر کمپنیوں نے اس تعلق سے حلف نامہ سرکار کے پاس جمع کرکے پالیسی تیار ہونے تک اور لائسنس نہ ملنے تک یہ خدمات فراہم نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے۔ تاہم ان سب کے باوجود یہ دیکھا گیا ہے کہ قواعد کی خلاف ورزی میں یہ خدمات جاری ہیں۔
ان کے مطابق کہ بائیک ٹیکسی کے تعلق سے مفاد عامہ کی عرضداشت فی الحال بامبے ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ای بائیک ٹیکسی ایگریگیٹر پالیسی کی تشکیل کیلئے اس کی فائل حکومت کے محکمہ قانون و انصاف کے زیر غور ہے۔ پرتاپ سرنائک کے مطابق اس تعلق سے جلد فیصلہ سنائے جانے کی امید ہے۔
ان حالات میں جہاں کئی کمپنیاں اپنی بائیک سروسیز کو بند کرکے حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہیں وہیں ریپیڈو، اولا اور اوبر جیسی کمپنیاں اپنی غیر مجاز بائیک ٹیکسی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان باتوں کے پیش نظر ریپیڈو، اولا اور اوبر یا دیگر کوئی بھی کمپنی اگر بغیر لائسنس حاصل کئے بائیک ٹیکسی کی خدمات فراہم کرتی ہے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
یاد رہے کہ اس تعلق سے مفاد عامہ کی ایک عرضداشت بامبےہائی کورٹ میں زیر التواء ہے۔ یہ عرضی تین رکشا ڈرائیوروں نے داخل کی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ پولیس کو حکم دیا جائے کہ بغیر جو غیرقانوی بائیک ٹیسکیاں چل رہی ہیں انہیں ضبط کرلیا جائے۔
اس پٹیشن پر سماعت کے دوران عدالت نے ۲۶؍ اگست کو ریاستی حکومت کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ حلف نامہ داخل کرکے عدالت کو بتائیں کہ ۱۹؍ جنوری ۲۰۲۳ء کو ایک ’گورنمنٹ ریزولوشن‘ (جی آر) جاری کرکے مہاراشٹر بائیک ٹیکسی چلانے پر جو پابندی عائد کی گئی تھی اس پر عمل درآمد کے تعلق سے کیا اقدام کئے گئے ہیں ۔ اس کےعلاوہ ۴؍ رکشا ڈرائیوروں نے بامبے ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کرکے شکایت کی تھی کہ مختلف کمپنیوں کے ذریعہ نجی موٹر سائیکل کو بھی بائیک ٹیکسی کے طور پر چلایا جارہا ہے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ پیلی رنگ کے بجائے سفید رنگ کی نمبر پلیٹ والی گاڑیوں کو بائیک ٹیکسی کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ غیرقانونی عمل ہے اور اس سے ان کا روزگار متاثر ہورہا ہے اس لئے عدالت اسے بند کرنے اور سخت اقدام کے احکام جاری کرے ۔تاہم عدالت نے اس معاملے میں مداخلت کرنے سے انکار کرتے ہوئے پٹیشن خارج کردی تھی۔ اس عرضداشت کو مسترد کرتے ہوئے ججوں نے روایتی ٹیکسی اور رکشا والوں پر تنقید کی تھی کہ وہ اکثر گینگ کی طرح کام کرتے ہیں اور من مانی کرتے ہیں۔ ججوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس پٹیشن کے ذریعہ عرضی گزار بلاواسطہ بائیک ٹیکسی کی کمپنیوں پر دباؤ بنانا چاہتے ہیں لیکن اس معاملے میں کسی کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی۔ ججوں نے کہا تھا کہ اگر تنہا شخص کو کہیں جانا ہو تو بائیک ٹیکسی ایک بہتر متبادل ہوسکتا ہے۔
واضح رہےکہ گزشتہ دنوں بائیک ٹیکسی کے خلاف تھانے کے ۸؍رکشا ڈرائیوروں نے بامبےہائی کورٹ کے روبرو عرضی داخل کرتے ہوئے اسے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور مذکورہ سروس سے ان کی روزی بری طرح متاثر ہونے کی دلیل دی تھی ۔ اس پر سماعت کے دوران عدالت نے پابندی سے متعلق منظور شدہ قرار داد کے باوجود شہر میں چلائی جانے والی بائیک ٹیکسیوں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس آلوک آرادھے اور جسٹس سندیپ مارنے سوال کیا تھا کہ ریاستی حکومت نے ۲؍ سال قبل ۱۹؍ جنوری ۲۰۲۳ء کو بائیک ٹیکسی پر پابندی عائد کرنے سے متعلق جو جی آر جاری کیا تھا ، اس کے مطابق کیا اقدامات کئے گئے ہیں ؟ساتھ ہی کورٹ اب تک کی جانے والی کارروائیوں کے تعلق سے بھی حکومت کو ایک حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا ۔