Inquilab Logo

کیا عمران خان اپنی حمایت میں اٹھنے والی عوامی لہر کو تحریک میں بدل سکیں گے؟

Updated: May 06, 2022, 11:40 AM IST | Agency | pakistan

پاکستان کے سابق وزیراعظم ان دنوں احتجاج اور جلسوں کے انعقاد میں مصروف ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ نئی حکومت کو تحلیل کرکے فوراً الیکشن کروائے جائیں تاکہ عوام اپنی مرضی کی حکومت منتخب کر سکیں۔ ہر چند کہ ان کے جلسوں میں خوب بھیڑ ہوتی ہے اور عوام ذاتی طور پر بھی ان کی حمایت میں احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کے جلسے اور احتجاج کب تک چل سکیں گے؟ کیا عمران خان عوامی دبائو کے ذریعے اسی سال الیکشن کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟

Is this enthusiasm of the people limited to meetings only or will it stay with Imran even in elections?.Picture:Agency
کیا عوام کا یہ جوش صرف جلسوں تک محدود ہے یا الیکشن میں بھی عمران کے ساتھ رہے گا؟ تصویر: ایجنسی

 پاکستان کے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ان دنوں مسلسل احتجاج اور جلسے کر رہے ہیں۔ وہ نئی حکومت کو چین سے بیٹھنے نہیں دینا چاہتے۔  ان کا کہنا ہے کہ عوام کو الیکشن  کے ذریعے مستقل موقعہ دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان کی حمایت میں لوگ سڑکوں پر اتر بھی رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اپنی حمایت میں اٹھنے والی عوامی لہر کو  کیا وہ تحریک کی شکل دے سکیں گے؟ کیا آنے والے دنوں میں گرمی کی شدت اور بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے یہ جوش و لولہ ٹھنڈا تو نہیں پڑ جائے گا؟ اس تعلق سے بی بی سی نے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جلسوں کی کامیابی کے سبب پی ٹی آئی کو امید ہے کہ  وہ ملک میں جلد ہی دوبارہ الیکشن کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔  یاد رہے کہ عمران خان کی حکومت عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے گرائی گئی ہے حالانکہ انہوں نے اس سے پہلے ہی استعفیٰ دیدیا تھا اور قومی اسمبلی کو تحلیل کرکے الیکشن کروانے کی درخواست دیدی تھی۔ 
  رپورٹ میں پاکستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ عمران خان کے پاس یہی آپشن ہے کہ وہ عوام کو منظم کریں، تحریک چلائیں اور دباؤ ڈالیںاس طرح اپنا ووٹ بینک مضبوط کریں اور  انتخابات جلد کروانے کی کوشش کریں۔ جبکہ سینئر پاکستانی  تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ’’ عمران خان کا پلان بھی یہی لگتا ہے کہ اتنا دباؤ بنائیں کہ مئی کے آخر تک یہ حکومت مفلوج ہو جائے۔ ’اب وہ مفلوج سڑکوں پر کرتے ہیں یا کسی اور طریقے سے کرتے ہیں ان کے پاس یہی آپشن ہے کہ سڑک پر اپنی طاقت کا اظہار کریں تاکہ جو باقی شراکت دار ہیں وہ مجبور ہوجائیں اور وہ حکومت کو کہیں کہ آپ الیکشن کروائیں۔‘ یہی عمران خان کی کامیابی ہوسکتی ہے۔‘‘ ان کے مطابق اگر وہ اگست یا ستمبر تک انتخابات کروانے میں کامیاب نہیں ہوئے  تو ان کا زور ٹوٹ جائے گا کیونکہ بڑے عرصے تک کوئی تحریک نہیں چلا پاتا۔‘‘مظہر عباس کا خیال ہے کہ لاہور میں بڑا شو کرنے کے بعد عید تک ایک بریک آئے گا جس کے بعد غالباً عمران خان اسلام آباد کیلئے لانگ مارچ کی کال دیں گے۔  ’عین ممکن ہے کہ ان کے پلان میں یہ بھی شامل ہو کہ بڑے شہروں میں دھرنے دیئے جائیں، سڑکیں بلاک کی جائیں تاکہ حکومت الیکشن کروانے پر مجبور ہوجائے۔ اس کے علاوہ انھیں یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں صورتحال ان کے ہاتھ سے بھی باہر نہ نکل جائے۔‘سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کہتے ہیں کہ عوامی جذبات ختم نہیں ہوتے جب تک کسی نتیجے پر نہ پہنچ جائیں۔ انھوں نے کہا کہ پہلے پاکستان میں سیاست بھٹو اور بھٹو مخالف میں تقسیم تھی، اب عمران خان اور اینٹی عمران خان تقسیم ہے۔ ’اب یہی لائن ہے کہ آپ عمران خان کے ساتھ ہیں یا مخالف ہیں۔‘‘بقول فواد چوہدری  سیاسی بحران کے بعد اب ملک معاشی اور سماجی بحران کی طرف جا رہا ہے، ’یہ حکومت ۷؍ ہفتوں سے زیادہ نہیں چل سکتی، ملک کو نئے انتخابات کی ضرورت ہے، ہم اسی طرف جارہے ہیں۔‘سندھ کے سابق گورنر عمران اسماعیل کہتے ہیں جلسے و جلوسوں کے علاوہ دھرنوں اور مارچ تک بھی جائیں گے، ’لاہور جلسے میں عمران خان اہم اعلان کریں گے اور الیکشن کی طرف جائیں گے۔‘ مسلم لیگ ن، پی پی پی، جے یو آئی اور ایم کیو ایم وفاقی حکومت کا حصہ بن چکی ہیں اور تحریک انصاف قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو چکی ہے۔ اس صورتحال میں کیا حکومت دباؤ میں ہے؟سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’پریشر تو موجود ہے، ظاہر ہے کہ اپوزیشن موجود نہیں ہے، اس کی وجہ سے دباؤ تو ہو گا۔‘’میرا خیال ہے کہ عمران کا ووٹ بینک تو اچھا خاصا بن گیا ہے لیکن کیا یہ سیٹیں بھی لے سکیں گے؟ کیونکہ ووٹ بینک الگ چیز ہے اور  الیکٹ ایبل کے ساتھ نشستیں لے جانا الگ چیز ہے۔
میرا خیال ہے ان میں کمی آئے گی۔ اس کے علاوہ یہ آہستہ آہستہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے دور ہو رہے ہیں جو پاکستان کے کلیدی ادارے ہیں۔ اس سے الیکٹ ایبل کیلئے کشش کم ہو جائے گی۔‘ لمس یونیورسٹی کے پروفیسر اور مصنف محمد وسیم کہتے ہیں کہ یہ اسپانسرڈ قیادت اور جماعت تھی اس لئے یہ تو ہونا تھا۔’تحریک انصاف اور پہلے کی کنگز پارٹیز میں فرق یہ ہے کہ جیسے کنونشل مسلم لیگ یا قائد اعظم مسلم لیگ اگلے انتخابات میں بالکل ڈھے جاتی تھیں، لگتا ہے کہ یہ بغیر اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ کے ۱۰؍ ۔۱۵؍ نشستوں پر آ جائے گی۔‘‘’ان کا آدھا ووٹ اپنا تھا اور آدھا ان الیکٹ ایبل کا تھا جو لائے گئے تھے۔ وہ اپنا ووٹ بھی لیکر آئے۔ اس طرح انھیں جو آدھا ووٹ ملا وہ ان کا نہیں تھا، عمران کے کئی پیروکار ہیں جو یہ نہیں دیکھنا چاہتے کہ معاشی گراوٹ کیا  ہے، سیکوریٹی کی صورتحال کیا ہے، فارن پالیسی کہاں گئی، انھیں بس عمران خان میں دلچسپی ہے۔‘تحریک انصاف نے حالیہ جلسوں سے قبل بھی ۲۰۱۳ء کے انتخابات کے بعد بڑے شہروں پر فوکس سیاست کی تھی۔سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ احتجاجی تحریکیں بڑے شہروں میں ہی چلتی ہیں، دیہی جو جذبات ہیں ان کا مظہر بھی شہروں میں ہی نظر آتا ہے، دیہات میں ایسا کچھ نہیں جس کا اظہار ہو سکے۔مظہر عباس بھی ان کے موقف سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں عمران کی ذاتی اپیل تو بڑے شہروں خاص طور پر کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور وغیرہ میں ہے۔ ’ماضی میں بھی انھوں نے یہاں دھرنے دیئے تھے کیونکہ ان کا اثر معیشت پر پڑتا ہے، اگر آپ کراچی بلاک کر دیں گے، تاجر اور کاروباری حضرات چیخ پڑتے ہیں۔‘پروفیسر محمد وسیم کہتے ہیں کہ اتحادی حکومت کی ایک جماعت کی سندھ اور دوسری کی پنجاب میں مضبوط بنیادیں ہیں لیکن پی ٹی آئی تھوڑی پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی سپورٹ متوسط طبقہ ہے، دیہی پاکستان میں ماسوائے خیبر پختون خواہ کے اس کی کہیں بھی جڑیں نہیں جبکہ ووٹ تو شہروں سے باہر بھی ہے۔
 خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف نے واضح کامیابی حاصل کی جبکہ دوسرے مرحلے میں سندھ میں جون میں انتخابات ہوں گے جبکہ مئی یعنی اگلے مہینے سے نامزدگی فارم کا سلسلہ شروع ہو جا ئیگا۔ سندھ کے انتخابات کے بعد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوں گے۔سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات میں جائے گی یا اپنی حکومت مخالف تحریک جاری رکھے گی۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران اسماعیل کہتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فیصلہ عمران خان کوکرنا ہے۔
 تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ پنجاب میں جو الیکشن ہوں گے اس میں کونسی جماعت ابھر کر آتی ہے، حکومت کیلئے بھی چیلنج ہوگا اور عمران خان کیلئے بھی ٹیسٹ ہوگا۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے چند روز قبل عمران خان سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا۔ ۲۰۱۸ءکے بعد ان کے درمیان یہ پہلا رابطہ تھا۔مظہر عباس کہتے ہیں کہ ماضی میں ۲۰۱۳ءمیں دونوں جماعتوں کا اتحاد رہا اور انتخابات میں بھی حصہ لیا۔ عین ممکن ہے کہ عمران خان کسی نئی سیاسی اتحاد کی طرف جا رہے ہوں، جماعت اسلامی کیلئے یہ موافق ہے کہ بلدیاتی اور عام انتخابات میں وہ اتحادی ہوں۔
 تاہم سینئر تجزیہ نگار سہیل وڑائچ ان کے موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’تحریک انصاف میں ساتھ لیکر چلنے کی گنجائش نہیں ہے، ان کی سولو فلائیٹ ہوگی۔‘پاکستان تحریک انصاف کے خلاف الیکشن کمیشن میں فارن فنڈنگ کیس بھی زیر سماعت ہے۔ درخواست گزار اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۳ء  کے درمیان ۱۲؍ممالک  سے ۷۳؍لاکھ امریکی ڈالر سے زائد رقم اکٹھی کی اور ان کے مطابق یہ فنڈنگ ممنوعہ ذرائع سے حاصل کی گئی ہے۔واضح رہے کہ پالیٹکل پارٹیز آرڈیننس ۲۰۰۲ء کے تحت پاکستان میں سیاسی جماعتوں کیلئے غیر ملکیوں سے فنڈ حاصل کرنا منع ہے۔ اس کے علاوہ توشہ خانے میں ملنے والے تحائف کی فروحت کے بھی چرچے جاری ہیں۔محمد وسیم کا کہنا ہے کہ ’پارٹی فنڈنگ کیس اور دوسرے معاملات باہر آئیں گے تو یہ جو ابھار ہے وہ تھوڑا تھم جائے گا۔ الیکشن ظاہر ہے بہت قریب نہیں ہیں اور اگر اپنے وقت پر ایک ڈیڑھ سال کے بعد ہوتے ہیں تو ان کی حمایت کافی نیچے جا چکی ہو گی۔‘سابق گورنر عمران اسماعیل کہتے ہیں کہ حکومت کی کوشش ہے کہ ’ایسے الزامات لگا دیں اور قوم کو یہ دکھائیں کہ عمران خان معاشی طور پر کرپٹ ہیں جس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ پورا پاکستان جانتا ہے کہ عمران خان کو پیسے سے پیار نہیں ہے۔‘’وزیراعظم کے پاس بے انتہا مواقع ہوتے ہیں پیسے بنانے کے، کسی چیز کی اجازت، کسی کا لائسنس، اس پر اربوں روپے بنائے جاسکتے ہیں۔ اب ایک وزیراعظم کے اوپر ایک کیس نہیں نکلا تو توشہ خانہ بنا رہے ہیں۔ یہ عمران خان کی جیت ہے کہ پوری مشینری لگانے کے باوجود انھیں ایسی کوئی چیز نہیں ملی اور اب حیلے بہانے سے توشہ خانے پر بات کر رہے ہیں۔‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK