عالمی شہرت یافتہ صحافی رویش کمار نے اپنے یوٹیوب چینل پر ظہران ممدانی پر خصوصی پروگرام میں تفصیلی تجزیہ پیش کیا ، ملاحظہ کریں اس پروگرام کی تلخیص
EPAPER
Updated: June 29, 2025, 8:45 AM IST | New York
عالمی شہرت یافتہ صحافی رویش کمار نے اپنے یوٹیوب چینل پر ظہران ممدانی پر خصوصی پروگرام میں تفصیلی تجزیہ پیش کیا ، ملاحظہ کریں اس پروگرام کی تلخیص
ہیلو میں ’رویش کمار ظہران کوامے‘ ممدانی ‘ ہوں۔ممدانی اور نیویارک کے میئر کا انتخاب کے موضوع کاہندوستان پر خاصا اثر ہوا ہے۔ اتنا کہ لوگ ممدانی کی بات کرنے والوں پر ہنستے ہیں۔کہا جارہا ہےکہ ان لوگوں کو ممبئی میں بی ایم سی اور بنگلورمیں بی بی ایم پی کے انتخابات کا تو پتہ نہیں ہے،نیویارک کے میئر کے الیکشن کی باتیں کرنے لگے ہیں۔کم از کم ظہران ممدانی کی جیت کے نتیجے میںممبئی میونسپل کارپوریشن کے الیکشن کی بات تو ہوئی ۔بتا دیں کہ ۳؍ سال سے ہندوستان کی سب سے بڑی میونسپل کار پوریشن میں انتخابات نہیںہوئے ہیں۔ اگر الیکشن کی بات بھی آپ ممدانی کے سبب کرتے ہیںتو اس پر تھوڑی شرم آنی چاہئے۔حقیقت یہ ہےکہ ظہران ممدانی کی جیت کئی طرح کی سیاست (سیاسی شعبدہ بازی اور جانبداری) کی شکست کے مترادف ہے۔
ظہران ممدانی ایک ہندوستانی نژاد، یوگانڈا میں پیدا ہونے والا مسلمان، تارک وطن اور فخریہ جمہوری سوشلسٹ نوجوان، صرف میئر کیلئے انتخاب نہیں لڑ رہا ہے بلکہ وہ اس نظام کے خلاف کھڑا ہے جو صرف طاقتوروں کیلئے سہولتیں پیدا کرتا ہے اور غریبوں کے خوابوں کو روند دیتا ہے۔ یہ موضوع نیویارک کے ایک امیدوار کی مہم سے شروع ہوتا ہے لیکن دراصل بات ہمارے شہروں، ہماری سیاست اور ہمارے خوف پر ہے۔آج بھارت کے کئی بڑے شہر خاص کر دہلی، ممبئی، بنگلور، رانچی جیسے شہر اپنی میونسپل حکومتوں کے بغیر جی رہے ہیں۔ بی ایم سی، ہندوستان کی سب سے امیر میونسپل کارپوریشن، تین سال سے انتخاب نہیں کرا رہی۔ آپ پوچھیں گے کیوں؟ شاید اس لئے کہ جس پارٹی نے ریاستی حکومت چھینی وہ شہر کی حکومت (یا شہر کے عوام ) سے ڈری ہوئی ہےاور جب کوئی نیویارک میں کھڑا ہو کر بلدیاتی سیاست کی بات کرے تو ہندوستان میں کچھ لوگ اس پر ہنستے ہیں۔ جیسے کسی کا مسائل پر بات کرنا جرم ہو۔
کون ہے ظہران ممدانی؟ ظہران ممدانی صرف ایک نام نہیں، ایک پیغام ہے۔ ان کی والدہ میرا نائر معروف فلمساز ہیں ۔ والد یوگانڈا سے ہندوستان آئے، مسلمان اور گجراتی نژاد ہیں۔ خود ممدانی نے کولمبیا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، امریکہ کے طاقتور حلقوں میں وقت گزارا اور پھر نیویارک کی سڑکوں پر آ گئے، عوام کے درمیان۔ان کی مہم کا منشور ہے:کرایہ کو مناسب حد میں لایا جائے ، مفت بسیں چلاؤ اور یونیورسل چائلڈ کیئر(ایسے بچوں کی دیکھ بھال کے ابتدائی مفت انتظامات جن کے والدین ملازمت کرتے ہیں)۔یہ مطالبے انہوں نے کئے ہیں۔اس طرح کے مطالبات ہمارے شہروں میں کیوں نہیں کئے جاتے؟باقی صفحہ ۲؍ پر ملاحظہ کریں
یہاں کیوں بسوں کی تعداد کم ہو رہی ہے؟ اسکول بند ہو رہے ہیں؟ اسپتالوں کی جگہ مال کھل رہے ہیں؟ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ظہران ممدانی کے پاس ایک ’طاقتور ‘ شناخت ہے: مسلمان، تارک وطن اور نچلے طبقے کی آواز لیکن وہ صرف اس شناخت پر سیاست نہیں کرتے۔ ان کا اصل پیغام ہے: سب کیلئےیکساں سہولت، سب کا یکساں احترام۔ انہوں نے اپنی تقاریر ہندی، اردو، گجراتی اور بنگالی میں کی ہیں اور یہیں سے ہمارے تعصبا ت کی حقیقت کھل جاتی ہےکہ ہم اردو سن کر(بولنے والے) پر’ انتہا پسندی‘ کا الزام لگا دیتے ہیں اور انگریزی بولنے والے سیاستداں کو جدید ذہن کا مالک تسلیم کر لیتے ہیں۔ ممدانی نے اپنی تقریر میں گجرات فسادات کا بھی ذکر کیا۔ نیویارک میں کھڑے ہو کر انھوں نے نریندر مودی پر سوال اٹھایا۔ ہندوستان میں یہ سوال حزبِ اختلاف بھی نہیں اٹھاتاکیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ ہندو ووٹر ناراض نہ ہو جائیں، لیکن ممدانی نے بتایا کہ سچ بولنے سے اگر آپ ہار بھی جائیں تو عزت باقی رہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے’’ میں نیویارک میں رہتا ہوں، میرا فرض یہاں کے لوگوں کے لئے ہے۔ میں میئر بنوں گا مگر سب کیلئے۔‘‘کیا ہندوستان میں کوئی ممدانی ہو سکتا ہے؟ہمیں سوچنا چاہیے، کیا ہمارا کوئی سیاست داں ایسا منشور لے کر سامنے آ سکتا ہے؟ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ دہلی کی کچی بستی نہیں گرائی جائے گی بلکہ وہیں اسکول اور اسپتال بنائے جائیں گے؟ یہ کہ بسیں مفت ہوں گی؟ یہ کہ ہر راشن دکان پر سرکاری نرخ لاگو ہوگا؟لیکن یہاں تو نعرے چلتے ہیں، ’سب کا ساتھ‘، ’سب کا وکاس‘ —اور ان نعروں کے پیچھے اصل سوال چھپے رہتے ہیں۔
ممدانی کی مہم کسی پروفیشنل ٹیم نے نہیں، عوام نے چلائی۔ سڑکوں پر جا کر ویڈیوز بنا ئے، لوگوں سے بات کی، ہر طبقے کو شامل کیا۔ ان کی ٹیم میں سیاہ فام، ایشیائی، لاطینی، عرب، سب لوگ شامل تھے۔انھوں نے پوسٹرز پر اپنا چہرہ نہیں چسپاں کیا بلکہ عوام کی تصاویر لگائیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اسرائیل پر ان کا موقف کیا ہے، تو انہوں نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسے وقت میں جب امریکہ میں بھی فلسطین کے حق میں بولنا ’سیاسی خطرہ‘ ہے، انہوں نے یہ کہنے کی جرأت کی۔
ہندوستان کی پریشانی کیا ہے؟ہمارے ہاں سیاست صرف نعروں پرمبنی رہ گئی ہے۔ زمینی مسائل کا کوئی تعلق انتخابات سے نہیں۔ انتخابات کا مطلب ہے مذہب، قوم، جذبات۔ ہمیں یاد دلایا جاتا ہے کہ نیویارک کے میئر کے الیکشن کا ہمیں کیا فائدہ؟ ہم دہلی کے ٹریفک جام میں ۳؍ گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں اور کہتے ہیں’’یہ تو قسمت ہے!‘‘ لیکن یہ قسمت نہیں، پالیسی کی ناکامی ہے۔ ممدانی کا ایک خواب ہے ایک ایسا شہر جو سب کیلئےہو۔ممدانی کہتے ہیں کہ ’’ہمیں ایسا شہر چاہیے جہاں لوگ عزت واحترام سے جی سکیں۔ جہاں کوئی بس کا کرایہ نہ دے سکے تو اس کا مطلب یہ نہ ہو کہ وہ کسی قابل نہیں ہے۔‘‘یہی خواب ہمیں بھی دیکھنا ہے۔ ہمیں اپنے شہروں کو سیاست کا مرکز بنانا ہوگا نہ کہ صرف انتخابی نقشے کا ایک خانہ۔ممدانی سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ہمیں سیکھنا ہوگا :سیاست میں سچ بولنا ممکن ہے....زمینی مسائل سے الیکشن جیتے جا سکتے ہیں..... شناخت سے آگے بڑھ کر انصاف کی بات کی جاسکتی ہے......اگر نیویارک میں ایک شخص یہ کر سکتا ہے تو دہلی، ممبئی، کولکاتا میں بھی کیا کوئی ایسا ممدانی پیدا نہیں ہو سکتا؟آخر میں، ایک سوال:کیا ہمیں ایک ایسا لیڈر چاہیے جو صرف اپنا چہرہ دکھائے؟ یا وہ جو ہر چہرے کو دیکھے اور کہے: ’’میں تمہارا مسئلہ جانتا ہوں...... اور میں تمہارا میئر بنوں گا۔‘‘