مسلمانوں کو ہائی کورٹ سے راحت ، پوری مسجد کو غیر قانونی قرار دینے کے میونسپل کمشنرکے فیصلے پر روک ، نچلے ۲؍ منزلوں کو جوں کا توں رکھنے کا حکم
EPAPER
Updated: December 03, 2025, 11:12 PM IST | Shimla
مسلمانوں کو ہائی کورٹ سے راحت ، پوری مسجد کو غیر قانونی قرار دینے کے میونسپل کمشنرکے فیصلے پر روک ، نچلے ۲؍ منزلوں کو جوں کا توں رکھنے کا حکم
ہماچل پردیش کی دارالحکومت شملہ میں بھگوا شرپسندوں کے کی آنکھوں میں کھٹکنے والی سنجولی مسجدکو شہید کرنے کی سازش بدھ کو ہائی کورٹ کے عبوری حکم کے بعد ناکام ہوگئی ہے۔ عدالت نے وقف کی زمین پر بنی اس مسجد کو شہید کرنے کے میونسپل کمشنر کورٹ اور ضلعی عدالت کی توثیق پر روک لگاتے ہوئے ہدایت جاری کی ہے کہ مسجد کے نچلےا ور پہلے منزلہ کے تعلق سے اس نے اکتوبر میں جو فیصلہ سنایاتھا،اس کے مطابق صورتحال کو جوں کا توں رکھا جائے۔ یاد رہے کہ اکتوبر میں ہائی کورٹ نے دوسری منزل سے اوپر کے تمام منزلوں کو تمام بلا اجازت کی غیر قانونی تعمیر قرار دیتے ہوئے ہٹانے کا حکم دیاتھا جس کو تسلیم کرتے ہوئے مسجد انتظامیہ نے خود ہی مذکورہ منزلوں کو ہٹانے کا وعدہ کیاتھا۔
پرانے تنازع کو نئے سرے سے ابھارا گیا
اس کے بعد ایسا لگا کہ تنازع حل ہوگیاہے تاہم گزشتہ چند ہفتوں سے بھگوا شرپسند پھر سرگرم ہوگئے۔انہوں نے مسجد میں نماز جمعہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اس کی بجلی اور پانی کی سپلائی بند کرنے اوراسے پوری طرح شہید کرنے مطالبہ کیا۔اس کیلئے بطور جواز میونسپل کمشنر کورٹ کاوہ فیصلہ پیش کیاگیا جس میں مسجد کی پوری عمارت کو غیرقانونی قراردیتے ہوئے ہٹانے کا حکم دیاگیا ہے۔ مسجد کمیٹی اور وقف بورڈ نے اسے ضلع کورٹ میں چیلنج کیا مگر ضلع کورٹ نے ۳۰؍اکتوبر کو شملہ میونسپل کمشنر کے۳؍ مئی۲۰۲۵ء کے مذکورہ حکم کو درست قرار دیا تھا جس کے بعد انتظامیہ نے شرپسندوں کے دباؤ میں مسجد کو شہید کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ بہرحال وقف بورڈ اور مسجد انتظامیہ نے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس پر بدھ کو راحت مل گئی اور اس طرح مسجدکو شہید کرنے کی سازش ناکام ہوگئی ہے۔
ہائی کورٹ کا باعث اطمینان فیصلہ
اس معاملے پر ہائی کورٹ میں سماعت جسٹس اجے موہن گوئل کی یک رکنی بنچ نے کی۔ عدالت نے اس معاملے میں میونسپل کارپوریشن کو نوٹس جاری کیا ہے اور موجودہ صورتحال برقرار رکھنے کے احکامات دیئے۔ عدالت نے گراؤنڈ اور پہلی منزل پر موجودہ حالت برقرار رکھنے جبکہ اوپری منزلوں کو توڑنے کے اپنے سابقہ حکم کو برقرار رکھا اور مارچ میں اگلی سماعت ۹؍ مارچ۲۰۲۶ء کو کرنے کای فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس اجے موہن گوئل نے کہا کہ چونکہ وقف بورڈ اور مسجد کمیٹی نے خود ان منزلوں کو ہٹانے کا وعدہ کیا تھا، اس لیے انہیں ہٹانا لازمی ہے۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو میونسپل کارپوریشن کو انہیں گرانے کی آزادی ہوگی۔ اس پر وقف بورڈ نے عدالت کو آگاہ کیاکہ ۳؍ میں سے ۲؍منزلیں ہٹا ئی جاچکی ہیں جبکہ تیسری منزل بھی ہٹا ئی جارہی ہے۔مسجد کی نیچے والی ۲؍ منزلوں کے بارے میں ہائی کورٹ نے۵؍ اکتوبر۲۰۲۴ء کے حکم کے مطابق موجودہ حالت برقرار رکھنے کی ہدایت دی جس کا بورڈ نے خیر مقدم کیا ہے۔مقامی مسلمانوں نے بھی عدالت کے فیصلے پر راحت کا سانس لیا ہے۔
۲؍ گروہ کے جھگڑے کے بعد معاملہ شروع ہوا
گزشتہ سال۳۱؍ اگست کو شملہ کے میہلی علاقے میں ۲؍ گروہوں کے جھگڑے کے بعد یہ معاملہ شروع ہوا۔ جھگڑے میں ملوث ایک کمیونٹی کے لوگ مبینہ طور پر سنجولی مسجد میں چھپ گئے تھے۔ اس کے بعد ناراض لوگوں نے یکم ستمبر کو مسجد کے باہر احتجاج کیا۔ پھر شملہ اور دیگر علاقوں میں بھی احتجاج ہوا۔۱۱؍ستمبر ۲۰۲۴ءکو سنجولی میں پھر بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا اور ماحول کشیدہ ہوگیا۔ اس کے بعد مسجد گرانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ ۱۲؍ ستمبر کو مسجد کمیٹی خود میونسپل کمشنر کی عدالت پہنچی اور غیر قانونی حصے کو خود ہٹانے کی پیشکش کی، جس کے بعد حالات کچھ حد تک معمول پر آئے۔
قانونی لڑائی پر ایک نظر
گزشتہ سال۵؍ اکتوبر کو کمشنر نے مسجد کی اوپر والی ۳؍منزلیں گرانے کا حکم دیا تھا مگر امسال ۳؍ مئی کو کمشنر نے پوری مسجد کو ہی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے شہید کرنے کا حکم دیا۔۱۷؍مئی ۲۰۲۵ء کو وقف بورڈ اور مسجد کمیٹی اس کے خلاف ضلع عدالت پہنچے۔ ۳۰؍ اکتوبر ضلع عدالت نےدرخواست خارج کردی اور کمشنر کے حکم کو درست قرار دیا ۔ اس کے بعد وقف بورڈ اور مسجد کمیٹی نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جہاں بدھ ۳؍ دسمبر کو سماعت ہوئی اور ۳؍ منزلیں ہٹانے کاسابقہ حکم برقرار رکھتے ہوئے پہلے۲؍ منزلوں کو تحفظ فراہم کیاگیا۔