• Thu, 16 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

منصورعلی خان پٹودی ٹیم انڈیا میں جارحانہ کپتانی کے بانی

Updated: January 05, 2020, 2:46 PM IST | Agency | New Delhi

ہندوستانی کرکٹ میں یوں توسورو گنگولی اور وراٹ کوہلی کا شمار جارح کپتانوں میں ہوتا ہے لیکن ٹیم انڈیا میں جارحانہ کپتانی کے آغاز کا سہرا منصور علی خان پٹودی کے سر ہے۔

منصور علی خان پٹودی ۔ تصویر : آئی این این
منصور علی خان پٹودی ۔ تصویر : آئی این این

 نئی دہلی : ہندوستانی کرکٹ میں یوں توسورو گنگولی اور وراٹ کوہلی  کا شمار جارح کپتانوں میں ہوتا ہے لیکن ٹیم انڈیامیں جارحانہ کپتانی کے آغاز کا   سہرا منصور علی خان پٹودی کے سر ہے  جنہوں نے ایک آنکھ سے معذوری کے باوجود غیرملکی سرزمین پر ہندوستان کوپہلی مرتبہ فتح سے ہمکنار کروایا تھا۔ ۵؍جنوری۱۹۴۱ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے  بلے باز نے محض ۲۱؍برس کی عمر میں ہندوستانی ٹیم  کی کپتانی سنبھالی تھی۔انہوں نے اسکول کی تعلیم دہرادون میں حاصل کی جہاں انہوں نے انگلینڈ کے سابق کھلاڑی اور کوچ فرینک وولی سے کرکٹ سیکھا۔بعد میں انہوں نے انگلینڈ کے ونچسٹر کالج میں اپنی تعلیم مکمل کی۔
 انہوں نے سسکیس کی طر ف سے فرسٹ کلاس میں قدم رکھا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا جب کسی ہندوستانی کھلاڑی نے آکسفورڈ ٹیم کی کپتانی کی۔  ٹائیگر  ایک جارحانہ کھلاڑی کے طور پر معروف تھے۔  اپنے زمانے کے  معروف فیلڈر کولن بلینڈ نے کہا تھا کہ میری نظر میں ٹائیگر کور پوائنٹ میں جوہنٹی روڈس سے بھی بہترین فیلڈرہیں۔وہ فیلڈنگ کرتےوقت گیند کو جس انداز میں پکڑتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’ٹائیگر‘ اپنا شکار کو دبوچ رہا ہو۔۲۱؍سالہ کپتان کی قیادت میں ٹیم انڈیا نے پہلی مرتبہ غیرملکی سرزمین پرنیوزی لینڈ کے خلاف ۱۹۶۸ء میں ٹیسٹ سیریزجیتی تھی۔ 
 اس وقت کے سب سے نوجوان کپتان نے کل۴۶؍ میچ کھیلے جس میں۴۰؍میچوں میں کپتانی کی۔ ان میں سے۹؍ میچوں میں کامیابی ، ۱۹؍ میں شکست اور۱۹؍ میچ ڈرا رهے۔ ملک کے باہر پہلی جیت دلانے کا کریڈٹ بھی کپتان پٹودی کو ہی جاتا ہے۔نواب منصور علی خان پٹودی کے والد نواب افتخار علی پٹودی اپنے دور کے معروف کرکٹر تھے۔ تب وہ انگلینڈ کی جانب سے کھیلتے تھے۔ ٹائیگر پٹودی کے والد کا انتقال انہی کے جنم دن کے موقع پر ہواتھا۔ اس وقت ان کی عمر محض ۱۱؍ سال تھی۔ان کے والد افتخار علی خان کا انتقال ۴۱؍برس کی عمر میں دہلی میں پولو کھیلنے کےدوران ہو ا تھا۔ اس کے بعد منصور انگلینڈ چلے گئے۔ 
 جولائی۱۹۶۱ء میں برطانیہ کے ھوو میں کار حادثہ  میں ان کی ایک آنکھ خراب ہوگئی تھی۔ اس حادثہ میں کار کی ٹوٹی ونڈشیلڈ کا ایک ٹکڑا ان کی آنکھ میں لگ گیا تھا جس سے ان کی دائیں آنکھ ہمیشہ کیلئے خراب ہوگئی ۔اس حادثہ کے بعد انہیں ہر چیز ڈبل نظر آنے لگی تھی جس کے بعد لوگوں کو لگا کہ ان کا کرکٹ کریئر ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا ہے۔
 پٹودي نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اسی کار حادثے نے انہیں مضبوط بنایا۔ پٹودی نے اپنی سوانح حیات میں بھی لکھا کہ کرکٹ کھیلنا تودور کی بات تھی ایک آنکھ گنوانے کے بعد انہیں گلاس میں پانی ڈالنے اور سگریٹ جلانے جیسی  چھوٹی چھوٹی چیزوں کیلئے بھی خاصی محنت کرنی پڑتی تھی۔  اس كے بعد پٹودی نے اپنے کھیل میں تبدیلی کی جس کی بدولت وہ میڈیم یا تیزکسی بھی رفتار کے گیندباز کا مقابلہ کر سکتے تھے۔
 جس سال ان کی ایک آنکھ خراب ہوئی تھی اسی سال انہوں نے انگلینڈ کے خلاف دہلی میں پہلا ٹیسٹ کھیلتے ہوئے کریئر کا آغازکیا تھا۔ اس کے بعد۱۹۶۲ءمیں ویسٹ انڈیزکے دورہ کے دوران انہیں ٹیم کا نائب کپتان بنایا گیا۔ اسی سال مارچ میں ویسٹ انڈیزکےدورے میں وہ ٹیم انڈیا کے کپتان بن گئے۔اس وقت ان کی عمر محض ۲۱؍برس  ۷۷؍دن تھی اور دنیا کے سب سے کم  عمر کے کپتان بن گئے ۔
  پٹودی نے صرف ایک آنکھ سے ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے خطرناک گیند بازوں کا آسانی سے سامنا کیا۔۸؍ فروری۱۹۶۴ء میں دہلی میں انگلینڈ کیخلاف کھیلی گئی ٹیسٹ سیریز میں نواب پٹودی نے ڈبل سنچری بنائی۔ اس میچ میں انہوں نے۲۰۳؍رن بنائے۔ ٹائیگر نےاپنے کریئر میں کل۴۶؍ ٹیسٹ میچ کھیلے، جن میں سے۴۰؍ میچ ان کی کپتانی میں کھیلے گئے۔ ٹائیگر نے اپنے کریئر میں ۶؍ سنچریوں کی مدد سے کل۲۷۹۳؍رن بنائے ۔
 نواب پٹودی کا خیال تھا کہ ہندوستانی کرکٹ ٹیم تبھی جیت سکتی ہے جب وہ اپنے طاقت کا بھرپور استعمال کرے جوکہ اسپن گیندبازی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پٹودی کی قیادت میں حالات کے برعکس بھی ٹیم میدان پر ۳؍ اسپنرس کے ساتھ اترتی تھی۔
 وہ  دائیں ہاتھ کےبلے باز اور میڈیم  تیز گیند باز تھے۔۲۰؍برس کی عمر میں کرکٹ کریئر آغاز کرنے والے پٹودی نے ہندوستان کیلئے۱۹۶۱ء سے۱۹۷۵ءکے درمیان کرکٹ کھیلا۔۱۹۶۲ء میں پٹودی نے ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی سنبھالی۔ انہوں نے ۱۹۷۰ء میں کپتانی چھوڑی اور۱۹۷۵ء میں کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لیا تھا۔
 پٹودی کو ارجن ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ اس کے علاوہ ۱۹۶۷ء میں حکومت ہند کی جانب سے انہیں پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔اس کے بعد انہوں نے سیاست کا بھی رخ کیا۔ ۱۹۹۱ءمیں منصور علی خاں نے کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کا الیکشن لڑا۔ الیکشن میں خود سابق وزیراعظم اور کانگریس صدر راجیو گاندھی نے ان کیلئے انتخابی مہم میں شرکت کی تھی  اور راجیو گاندھی نے ہی انہیں بھوپال سےالیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا تھا۔
 کرکٹ کے میدان پر `ٹائیگر کہے جانے والے منصور علی خان پٹودی کی زندگی کسی فلم سے کم نہیں۔ حادثے میں ایک آنکھ کی روشنی کھو جانا، نوابوں والی شان وشوکت کے ساتھ زندگی جینا اور اپنے دور کی مشہور اداکار شرمیلا ٹیگور سے عشق لڑانے کے لئے بھی وہ کافی مشہور  ہوئے۔
 رپورٹوں کے مطابق شرمیلا اور منصور علی کی پہلی ملاقات دہلی میں ہوئی تھي ۔پهلي ہی ملاقات میں پٹودی شرمیلا ٹیگور کو دل دے بیٹھے لیکن محبت کی راہ یہاں بھی مشکل تھی کیونکہ ٹائیگر پٹودی نواب خاندان سےتھے اور شرمیلا بالی ووڈ اداکارہ لیکن عشق بدستور جاری تھا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ رشتہ چلے گا نہیں لیکن دونوں نے دنیا کو غلط ثابت کیا اور رشتہ نکاح تک پہنچا۔۲۷؍ دسمبر ۱۹۶۹ء میں دونوں کا نکاح ہوا۔ ان کا ایک بیٹا معروف اداکار سیف علی خان اور۲؍ بیٹیاں اداکارہ سوہا علی خاں اور مشہور ڈیزائنر صبا علی خاں ہیں۔۲۲؍ ستمبر۲۰۱۱ء کو پھیپھڑوں کے انفیکشن کی وجہ سے ۷۰؍ سال کی عمر میں ٹائيگر پٹودی کا انتقال ہوگیا لیکن آج بھی ’ٹائیگر‘ مداحوں کے دلوں میں  زندہ ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK