Updated: November 25, 2025, 4:09 PM IST
|
Agency
| Washington
مگر یوکرین کے صدر زیلنسکی نے کہا کہ جنگ کے خاتمہ کیلئے وہ امریکہ کی ہر کوشش کے شکر گزار ہیں، جنگ بندی کیلئے جنیوا مذاکرات کے نتیجہ خیز ہونے کا دعویٰ۔
امریکی صدرٹرمپ اوریوکرینی صدر زیلنسلی کے درمیان ایک ملاقات کا منظر۔ تصویر:آئی این این
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اتوار کو یوکرین کے صدر ولادیمیرزیلنسکی پر الزام لگایا کہ وہ ان کی کوششوں کیلئے ناشکری دکھا رہا ہے جبکہ جواب میں یوکرینی صدر زیلنسکی نے کہا کہ جنگ ختم کرانے کیلئے ہم ٹرمپ اور امریکہ کی ہر کوشش کے شکر گزار ہیں۔ زیلنسکی نے زور دیا کہ ان کا ملک امن کے حصول کے لیے تمام نکات اور اقدامات پر کام کر رہا ہے۔ یوکرینی صدر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’’ ایکس ‘‘ پر لکھا کہ یوکرین امریکہ کا، ہر امریکی دل کا اور صدر ٹرمپ کا ذاتی طور پر اس مدد کیلئے شکر گزار ہے۔ اس مدد نے یوکرینیوں کی جانیں بچائی ہیں۔‘‘
ٹرمپ نے پلیٹ فارم ’’ ٹروتھ سوشل ‘‘ پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یوکرین کی قیادت نے ہماری کوششوں پر ناشکری کا مظاہرہ کیا ہے اور یورپ بھی روس سے تیل خرید رہا ہے۔ امریکہ نیٹو اتحادیوں کو یوکرین کی تقسیم کے لیے بھاری مقدار میں اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔ بدعنوان جو بائیڈن نے بڑی رقم سمیت سب کچھ مفت، مفت، مفت فراہم کیا۔خدا ان تمام متاثرین پر رحم کرے جنہوں نے اس انسانی تباہی میں اپنی جانیں گنوائیں۔‘‘
امریکی صدر نے مزید کہا ’’ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ شدید اور خوفناک ہے اور اگر امریکہ اور یوکرین کی قیادت مضبوط ہوتی تو یہ جنگ کبھی نہ ہوتی۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ جنگ میرے دوسری مدت کے عہدہ سنبھالنے سے بہت پہلے، نیند میں ڈوبے جو (سابق امریکی صدر) کے انتظامیہ کے دوران شروع ہوئی اور بدتر ہوتی گئی۔ اگر۲۰۲۰ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں دھاندلی نہ ہوتی تو یوکرین اور روس کے درمیان جنگ نہ ہوتی۔ میرے پہلے دور میں بھی اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔‘‘
ٹرمپ نے زور دے کر کہا’’ پوتن کبھی حملہ نہ کرتے، صرف جب انہوں نے نیند میں کھوہوئے جو کو عہدے پر دیکھا تو کہا کہ اب میرا موقع ہے! مجھے ایک ایسی جنگ ورثے میں ملی جو کبھی نہیں ہونی چاہئے تھی۔ ایک ایسی جنگ جس میں سب کا نقصان ہوا خاص طور پر لاکھوں لوگ جو بلاوجہ مارے گئے۔‘‘ واضح رہےکہ یوکرین اور اس کے مغربی اتحادیوں کے حکام نے اتوار کو جنیوا میں امریکی امن منصوبے پر بات چیت شروع کی ہے۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے امید ظاہر کی ہے کہ جنیوا میں یوکرینی، امریکی اور یورپی ٹیموں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور وزیر خارجہ مارکو روبیو روس-یوکرین جنگ کو ختم کرنے کے لیے جاری بات چیت میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ جنگ اب چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے۔جمعہ کو امریکی صدر نے اپنے یوکرینی ہم منصب زیلنسکی کو جمعرات تک کی مہلت دی تھی کہ وہ۲۸؍ نکاتی منصوبے پر رضامندی ظاہر کریں۔ یہ منصوبہ یوکرین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ کچھ علاقوں سے دست بردار ہوجائے۔ اپنی فوج پر عائد پابندیوں کو قبول کرے اور نیٹو میں شمولیت کے اپنے عزائم ترک کر دے۔
امریکی اور یوکرینی مذاکرات کاروں نے ایک ’تازہ ترین اور بہتر امن فریم ورک‘ تیار کیا ہے اور وہ آنے والے دنوں میں امن منصوبے پر کام جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس موقع پر جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جنیوا میں امریکی حمایت یافتہ منصوبے پر بات چیت ’انتہائی نتیجہ خیز‘ رہے۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے حوالے سے ’زبردست پیش رفت ‘ ہوئی ہے، لیکن روس کے ساتھ حتمی معاہدہ سے پہلے ابھی کچھ کام کرنا باقی ہے۔منصوبےکے اصل مسودہ کا جس کی تفصیلات گزشتہ ہفتے منظر عام پر آئی تھیں، روس نے محتاط انداز میں خیرمقدم کیا ہے لیکن کیف اور یورپ کےلیڈروں نے نہیں۔ انہوں نے اسے کریملن کیلئے بہت زیادہ سازگار قراردیا ہے۔ جنیوا میںالگ الگ طور پر۳؍ یورپی ممالک برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے قومی سلامتی کے مشیروں نے بھی یوکرینی وفد سے جنیوا میں ملاقاتیں کیں۔بیان میں یوکرین نے جنگ ختم کرنے اور مزید جانی نقصان کو روکنے کی کوششوں کیلئے امریکہ اور بالخصوص صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ’ثابت قدمی ‘کا شکریہ ادا کیا۔
دونوں حکومتوں نے کہا کہ وہ آنے والے ایام میں مشترکہ تجاویز پر بھرپور کام جاری رکھیں گے اور مذاکرات آگے بڑھنے کے ساتھ یورپی شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہیں گے۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ابھرتے فریم ورک کے تحت حتمی فیصلے امریکہ اور یوکرین کے صدور کریں گے۔ دونوں فریقوں نے یوکرین کی حفاظت، استحکام، اور دوبارہ تعمیر کو یقینی بنانے والے امن کے حصول کے لیے مل کر کام جاری رکھنے کا اعادہ کیا ، جس سے واضح اشارہ ملا کہ عمل اب ایک اگلے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے اور باقی اختلافات کو کم کیا جا رہا ہے۔امن منصوبےکے حوالے سے امریکہ پر تنقیدیںبھی ہورہی ہیںکہ یہ دستاویز صرف روسی خواہشات کی فہرست ہے جس کی امریکہ نے تردید کی ہے۔امریکی وزیر خارجہ نےمارکو روبیو نے واضح کیا ہےکہ یہ امریکی پالیسی ہے جس میںروس اوریوکرین دونوں کی آراء شامل ہیں۔