Inquilab Logo

سونے کی اینٹ

Updated: January 09, 2021, 5:47 PM IST | Dr.Jalees Sahsevani

یہ کہانی فہیم نامی لڑکے کی ہے۔ فہیم انتہائی ضدی بچہ ہے اور ہمیشہ اپنی بات منواتا ہے۔ جانیں ضد کا انجام کیا ہوتا ہے:

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

فہیم ہر روز کی طرح آج بھی اپنی امّی سے جھگڑ رہا تھا اور ضد کر رہا تھا، مجھے پیسے دیجئے تب اسکول جاؤں گا!‘‘ اس کی امی اُسے سمجھا رہی تھیں، ’’بیٹا! اچھے بچّے کبھی ضد نہیں کرتے، تم اسکول چلے جاؤ۔ شام کو اپنے ابو جی سے پیسے لے لینا.... دیکھو اچھے بچّے کبھی لالچ نہیں کرتے۔ انہیں سب اچھا کہتے ہیں اور جو بچے اپنے ماں باپ اور بڑوں کو کہنا نہیں مانتے اور اپنی ضد کرتے ہیں انہیں سب برا کہتے ہیں۔‘‘لیکن فہیم کسی طرح نہ مانا اور زور زور سے رونے لگا تو اس کی امّی نے جھنجھلا کر دو تھپڑ رسید کر دیئے۔ لیکن اُس کی ضد، اس کی رٹ میں کمی نہ ہوئی بلکہ سسکیوں اور آنسوؤں کے سیلاب میں اور اضافہ ہوگیا۔
 اُسے اس طرح روتے دیکھ کر اس کی امّی کی محبت کا جذبہ اُمڈ آیا، انہوں نے آنچل سے اس کے آنسو پونچھتے اور پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ’’میرے لال ابھی تم اسکول چلے جاؤ۔ شام کو تمہارے ابو سے ایک آنہ کے بدلے دو آنے دلا دوں گی۔‘‘
 فہیم دو آنے کا نام سن کر کچھ راضی سا ہوگیا۔ کیوں نہ ہوتا وہ پہلے بھی تو کئی بار ایسا کر چکا تھا اور دو آنے مل بھی چکے تھے۔
 شام کو فہیم جب اپنے مکتب سے لوٹا تو اس نے پھر وہی دو آنے والی بات شروع کر دی۔
 ’’مجھے اب دو آنے لایئے امّی! آپ ہی نے کہا تھا کہ ابّو آجائیں گے تب دو آنے دلا دوں گی۔‘‘ وہ اپنی ضد پر اڑا رہا اور اپنی امّی کو پریشان کر رہا تھا کہ اُس کی تیز آواز سن کر اس کے ابّو کمرے سے باہر آئے اور اُس اِس بُری طرح سے ڈانٹا کہ وہ کانپنے لگا۔ سسکیاں اور بڑھ گئیں اور آنسو بہنے لگے۔ لیکن وہ دو آنے کی رٹ کو نہ بھولا۔ آخر اُس کے ابّو کو اس کے آنسوؤں سے مجبور ہوکر دو آنے اس کے ہاتھ پر رکھنا ہی پڑے۔ فہیم ان کا اکلوتا بیٹا تھا اس لئے اس کی بہت دلجوئی کرتے تھے۔ اس کے دل پر اداسی کی پرچھائیں نہ پڑنے دیتے تھے۔
 تھوڑی دیر کے بعد اس کے ابّو نے اُسے کمرے میں بٹھایا اور بولے:
 ’’دیکھو بیٹا! اچھے بچّے کبھی ضد نہیں کرتے اور نہ پیسوں کی لالچ کرتے ہیں۔‘‘ اُس کے ابّو نے اُس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے سمجھایا ’’اچھا فہیم میاں دیکھو مَیں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں.... سنو گے نا؟‘‘
 ’’جی....!‘‘ فہیم نے معصومیت سے اپنے ابّو کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کے ابّو نے ایک بار زور سے کھانس کر اپنا گلا صاف کیا اور کہنے لگے... بہت پہلے کی بات ہے، ایک دن ایک بزرگ اور نیک آدمی اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ سفر کر رہے تھے، منزل بہ منزل آگے بڑھتے۔ ریگستان علاقے، جھاڑ جھنکاڑ اور پہاڑ درّے پار کرتے ہوئے چلے جا رہے تھے کہ راست میں اُن کے تینوں ساتھیوں کو ایک ساتھ ہی کوئی چمکدار چیز نظر آئی۔ تینوں اُس چمکدار چیز کی طرف باز کی طرح جھپٹے، وہ اُس سے جتنا قریب ہوتے جاتے تھے۔ وہ چیز اتنی ہی آب دار اور صاف دمکتی نظر آتی تھی۔ بالکل ایسی جیسے آفتاب کی زرد کرنیں، جب وہ اُس کے نزدیک ہوگئے تو حیرت سے اُن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
 ’’جانتے ہو فہیم میاں ایسا کیوں ہوا؟‘‘ فہیم کے ابّو نے کھانستے ہوئے پوچھا۔
 فہیم چند منٹ سوچنے کے بعد بولا ’’جی... جی... ا‘س چمکدار چیز کو دیکھ کر۔‘‘
 ’’ہاں بیٹا....‘‘
 ’’پھر ابّو وہ تھی کیا چیز؟‘‘ فہیم نے استعجاب سے کہا۔
 ’’بیٹے وہ سونے کی اینٹ تھی!‘‘
 ’’سونے کی اینٹ؟ پھر کیا ہوا اُس اینٹ کا ابّو؟‘‘ فہیم بے تابی سے پوچھا۔
 بزرگ نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’اس اینٹ کو نہ چھوؤ، یہ فساد کی جڑ ہے، اسے مت اٹھاؤ... یہ رہ جائے گی تم نہ رہو گے!‘‘
 ’’جانتے ہو بڑوں کا کہنا نہ ماننے پر کیا حشر ہوتا ہے؟‘‘ فہیم کے ابو نے اس سے سوال کیا۔
 ’’برا حشر ہوتا ہے ابّو جی!‘‘ فہیم نے بھولے پن سے جواب دیا۔
 ’’تو پھر تم اپنے ابّو اور امّی کا کہنا مانتے ہو؟‘‘
 اس سوال کے جواب میں فہیم اپنی غلطی کا احساس کرکے نادم ہوگیا۔ چند منٹ کی خاموشی کے بعد اُس کے ابّو نے پھر کہا۔
 ’’فہیم سنو! اُن تینوں نے مل کر اس اینٹ کو اٹھالیا۔ بزرگ نے پھر فرمایا ’’پھینک دو اسے! یہ تمہاری آزمائش ہے۔‘‘ بھلا ضد اور لالچ کے آگے کس کی چلتی ہے، وہ اپنی ضد اور لالچ پر اڑے رہے اور اینٹ جھولی میں ڈال لی۔ تھوڑی دور چل کر وہ ایک شہر کے پاس جاکر ٹھہرے، بھوک بری طرح انہیں ستا رہی تھی۔ انہوں نے اپنے ایک ساتھی کو شہر سے کھانا لانے کے لئے بھیج دیا۔ اور بزرگ وہاں سے کسی اور طرف چلے گئے۔ جب وہ دونوں شخص تنہا رہ گئے تو انہوں نے مشورہ کیا کہ جب وہ کھانا لے کر آجائے تو کیوں نہ ہم دونوں مل کر اُسے موت کے گھاٹ اتار دیں! اور اس اینٹ کو آدھی آدھی بانٹ لیں۔ ایک کی تدبیر دوسرے کی سمجھ میں آگئی اور دونوں اس کام کو مستعدی سے انجام دینے کے لئے آمادہ ہوگئے۔ اُدھر کھانا لانے والے آدمی نے سوچا کہ مَیں کیوں نہ کھانے میں زہر ملا دوں تاکہ وہ دونوں اسے کھا کر ہمیشہ کی نیند سو جائیں اور سونے کی اینٹ میری ہو جائے اور اُس نے کھانے میں زہر ملا دیا۔‘‘
 وہ جیسے ہی زہر ملا ہوا کھانا لے کر پہنچا، اُن دونوں نے مل کر اس کا گلا گھونٹ دیا اور وہ ایک ہچکی لے کر ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگیا۔
 اب دونوں اطمینان سے کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ لیکن کھانا کھا کر کچھ دیر بعد وہ دونوں بھی مر گئے اور سونے کی اینٹ حسرت سے اُن تینوں کی بے جان لاشوں کو تک رہی تھی۔
 ’’دیکھا بیٹا! اگر اُن تینوں نے بزرگ کا کہا مانا ہوتا تو کیوں ایسا ہوتا.... جس طرح چھوٹا بچہ بڑا آدمی بن جاتا ہے، اسی طرح چھوٹے گناہ سے بڑا گناہ اور چھوٹے لالچ سے بڑا لالچ پیدا ہوتا ہے.... سنا بیٹا تم نے! لالچ اور ضد کتنی بری بات ہے!‘‘
 اپنے ابّو سے یہ قصہ سننے کے بعد فہیم نے پھر کبھی ضد اور لالچ نہیں کی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK